Surah 30 : Ayat 41
ظَهَرَ ٱلْفَسَادُ فِى ٱلْبَرِّ وَٱلْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِى ٱلنَّاسِ لِيُذِيقَهُم بَعْضَ ٱلَّذِى عَمِلُواْ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ
خشکی اور تری میں فساد برپا ہو گیا ہے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے تاکہ مزا چکھائے اُن کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں1
1 | یہ پھراُس جنگ کی طرف اشارہ ہےجواُس وقت روم وایران کےدرمیان برپاتھی،جس کی آگ نے پورے شرق اوسط کواپنی لپیٹ میں لےلیاتھا۔’’لوگوں کےاپنے ہاتھوں کی کمائی‘‘سےمرادوہ فسق وفجوراورظلم وجورہےجوشرک یادہریت کاعقیدہ اختیارکرنےاورآخرت کونظراندازکردینےسےلازمًاانسانی اخلاق وکردارمیں رونماہوتاہے۔’’شایدکہ وہ بازآئیں‘‘کامطلب یہ ہےکہ اللہ تعالٰی آخرت کی سزاسےپہلےاِس دنیامیں انسانوں کوان کےتمام اعمال کانہیں بلکہ بعض اعمال کابُرانتیجہ اس لیےدکھاتاہےکہ وہ حقیقت کوسمجھیں اوراپنےتخیلات کی غلطی کومحسوس کرکےاُس عقیدہٴصالحہ کی طرف رجوع کریں جوانبیاءعلیہ السلام ہمیشہ سےانسان کےسامنے پیش کرتےچلےآرہےہیں،جس کواختیارکرنے کےسواانسانی اعمال کوصحیح بنیاد پرقائم کرنےکی کوئی دوسری صورت نہیں ہے۔یہ مضمون قرآن مجید میں متعددمقامات پربیان ہواہے۔مثال کےطورپرملاحظہ ہو،التوبہ،آیت ۱۲۶۔الرعد،آیت ۳۱۔السجدہ،۲۱۔الطور،۴۷۔ |
Surah 30 : Ayat 42
قُلْ سِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلُۚ كَانَ أَكْثَرُهُم مُّشْرِكِينَ
(اے نبیؐ) اِن سے کہو کہ زمین میں چل پھر کر دیکھو پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا کیا انجام ہو چکا ہے، ان میں سے اکثر مشرک ہی تھے1
1 | یعنی روم وایران کی تباہ کن جنگ آج کوئی نیا حادثہ نہیں ہے۔پچھلی تاریخ بڑی بڑی قوموں کی تباہی وبربادی کےریکارڈ سےبھری ہوئی ہے۔اوران سب قوموں کوجن خرابیوں نے برباد کیااُن سب کی جڑیہی شرک تھاجس سےبازآنے کےلیےآج تم سےکہاجا رہا ہے۔ |
Surah 30 : Ayat 43
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ ٱلْقَيِّمِ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُۥ مِنَ ٱللَّهِۖ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ
پس (اے نبیؐ) اپنا رُخ مضبوطی کے ساتھ جما دو اِس دین راست کی سمت میں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹل جانے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے1 اُس دن لوگ پھَٹ کر ایک دُوسرے سے الگ ہو جائیں گے
1 | یعنی جس کونہ اللہ تعالٰی خود ٹالے گااورنہ اس نےکسی کےلیے ایسی کسی تدبیرکی کوئی گنجائش چھوڑی ہےکہ وہ اسےٹال سکے۔ |
Surah 30 : Ayat 44
مَن كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُۥۖ وَمَنْ عَمِلَ صَـٰلِحًا فَلِأَنفُسِهِمْ يَمْهَدُونَ
جس نے کفر کیا ہے اس کے کفر کا وبال اسی پر ہے1 اور جن لوگوں نے نیک عمل کیا ہے وہ اپنے ہی لیے فلاح کا راستہ صاف کر رہے ہیں
1 | یہ ایک جامع فقرہ ہےجوتمام اُن مضرتوں کواپنےاندرسمیٹ لیتاہےجوکافرکواپنے کفرکی بدولت پہنچ سکتی ہیں۔مضرتوں کی کوئی مفصل فہرست بھی اتنی جامع نہیں ہوسکتی۔ |
Surah 30 : Ayat 45
لِيَجْزِىَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ مِن فَضْلِهِۦٓۚ إِنَّهُۥ لَا يُحِبُّ ٱلْكَـٰفِرِينَ
تاکہ اللہ ایمان لانے والوں اور عملِ صالح کرنے والوں کو اپنے فضل سے جزا دے یقیناً وہ کافروں کو پسند نہیں کرتا
Surah 30 : Ayat 46
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦٓ أَن يُرْسِلَ ٱلرِّيَاحَ مُبَشِّرَٲتٍ وَلِيُذِيقَكُم مِّن رَّحْمَتِهِۦ وَلِتَجْرِىَ ٱلْفُلْكُ بِأَمْرِهِۦ وَلِتَبْتَغُواْ مِن فَضْلِهِۦ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ہوائیں بھیجتا ہے بشارت دینے کے لیے1 اور تمہیں اپنی رحمت سے بہرہ مند کرنے کے لیے اور اس غرض کے لیے کہ کشتیاں اس کے حکم سے چلیں2 اور تم اس کا فضل تلاش کرو3 اور اس کے شکر گزار بنو
2 | یہ ایک اورقسم کی ہواؤں کاذکرہےجوجہازرانی میں مددگارہوتی ہیں۔قدیم زمانہ کی بادبانی کشتیوں اورجہازوں کاسفرزیادہ تربادِموافق پرمنحصرتھااوربادِ مخالف ان کےلیے تباہی کاپیش خیمہ ہوتی تھی۔اس لیےبارش لانےوالی ہواؤں کےبعدان ہواؤں کاذکرایک نعمتِ خاص کی حثییت سےکیا گیاہے۔ |
1 | یعنی بارانِ رحمت کی خوشخبری دینےکےلیے۔ |
Surah 30 : Ayat 47
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ رُسُلاً إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَآءُوهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِ فَٱنتَقَمْنَا مِنَ ٱلَّذِينَ أَجْرَمُواْۖ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ ٱلْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے تم سے پہلے رسُولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے1، پھر جنہوں نے جرم کیا2 اُن سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں
2 | یعنی جولوگ ان دونوں نشانیوں کی طرف سےاندھے بن کرتوحیدسےانکارپرجمےرہےاورخداسےبغاوت ہی کیےچلےگئے۔ |
1 | یعنی ایک قسم کی نشانیاں تووہ ہیں جوکائناتِ فطرت میں ہرطرف پھیلی ہوئی ہیں،جن سےانسان کواپنی زندگی میں ہرآن سابقہ پیش آتاہے،جن میں سےایک ہواؤں کی گردش کایہ نظام ہےجس کااوپرکی آیت میں ذکرکیا گیاہے۔اوردوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جوانبیاءعلیہ السلام معجزات کی صورت میں،کلامِ الٰہی کی صورت میں،اپنی غیرمعمولی پاکیزہ سیرت کی شکل میں،اورانسانی معاشرے پراپنی حیات بخش تاثیرات کی شکل میں لےکرآئے۔یہ دونوں قسم کی نشانیاں ایک ہی حقیقت کی نشان دہی کرتی ہیں،اوروہ یہ ہےکہ جس توحیدکی تعلیم انبیاءدےرہےہیں وہی برحق ہے۔ان میں سے ہرنشانی دوسری کی موٴیّد ہے۔کائنات کی نشانیاں انبیاء کےبیان کی صداقت پرشہادت دیتی ہیں اورانبیاءکی لائی ہوئی نشانیاں اُس حقیقت کوکھولتی ہیں جس کی طرف کائنات کی نشانیاں اشارے کررہی ہیں۔ |
Surah 30 : Ayat 48
ٱللَّهُ ٱلَّذِى يُرْسِلُ ٱلرِّيَـٰحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُۥ فِى ٱلسَّمَآءِ كَيْفَ يَشَآءُ وَيَجْعَلُهُۥ كِسَفًا فَتَرَى ٱلْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَـٰلِهِۦۖ فَإِذَآ أَصَابَ بِهِۦ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦٓ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
اللہ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بادل اٹھاتی ہیں، پھر وہ اِن بادلوں کو آسمان میں پھیلا دیتا ہے جس طرح چاہتا ہے اور انہیں ٹکڑیوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تُو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل سے ٹپکے چلے آتے ہیں یہ بارش جب وہ اپنے بندوں میں سے جن پر چاہتا ہے برساتا ہے
Surah 30 : Ayat 49
وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلِ أَن يُنَزَّلَ عَلَيْهِم مِّن قَبْلِهِۦ لَمُبْلِسِينَ
تو یکایک وہ خوش و خرم ہو جاتے ہیں حالانکہ اس کے نزول سے پہلے وہ مایوس ہو رہے تھے
Surah 30 : Ayat 50
فَٱنظُرْ إِلَىٰٓ ءَاثَـٰرِ رَحْمَتِ ٱللَّهِ كَيْفَ يُحْىِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَآۚ إِنَّ ذَٲلِكَ لَمُحْىِ ٱلْمَوْتَىٰۖ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
دیکھو اللہ کی رحمت کے اثرات کہ مُردہ پڑی ہوئی زمین کو وہ کس طرح جِلا اٹھاتا ہے1، یقیناً وہ مُردوں کو زندگی بخشنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے
1 | یہاں جس انداز سےنبوت اوربارش کاذکریکے بعددیگرے کیاگیا ہےاس میں ایک لطیف اشارہ اس حقیقت کی طرف بھی ہے کہ نبی کی آمد بھی انسان کی اخلاقی زندگی کے لیےویسی ہی رحمت ہےجیسی بارش کی آمد اس کی مادّی زندگی کےلیےرحمت ثابت ہوتی ہے۔جس طرح آسمانی بارش کے نزول سےمردہ پڑی ہوئی زمین یکایک جی اُٹھتی ہےاوراس میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں،اسی طرح آسمانی وحی کانزول اخلاق وروحانیت کی ویران پڑی ہوئی دنیا کوجِلااُٹھاتاہےاوراس میں فضائل ومحامد کےگلزارلہلہانے شروع ہوجاتے ہیں۔یہ کفار کی اپنی بدقسمتی ہی کہ خداکی طرف سےیہ نعمت جب ان کےہاں آتی ہےتووہ اس کاکفران کرتے ہیں اوراس کو اپنے لیےمثردہٴرحمت سمجھنے کےبجائے پیامِ موت سمجھ لیتے ہیں۔ |