Surah 30 : Ayat 31
۞ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَٱتَّقُوهُ وَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَلَا تَكُونُواْ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
(قائم ہو جاؤ اِس بات پر) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے1، اور ڈرو اُس سے2، اور نماز قائم کرو3، اور نہ ہو جاؤ اُن مشرکین میں سے
3 | اللہ تعالٰی کی طرف رجوع اوراس کے غضب کا خوف،دونوں قلب کے افعال ہیں۔اس قلبی کیفیت کواپنے ظہوراوراپنےاستحکام کے لیے لازمًا کسی ایسے جسمانی فعل کی ضرورت ہےجس سے خارج میں بھی ہرشخص کومعلوم ہوجائے کہ فلاں شخص واقعی اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی کی طرف پلٹ آیا ہے،اورآدمی کےاپنے نفس میں بھی اِس رجوع وتقوٰی کی کیفیت کوایک عملی مُمارست کےذریعہ سے پے درپےنشوونما نصیب ہوتاچلا جائے۔اسی لیے اللہ تعالٰی اُس ذہنی تبدیلی کاحکم دینے کے بعد فوراً ہی اس جسمانی عمل،یعنی اقامتِ صلٰوۃ کاحکم دیتاہے۔آدمی کے ذہن میں جب تک کوئی خیال محض خیال کی تک رہتاہے،اس میں استحکام اورپائیداری نہیں ہوتی۔اُس خیال کے ماندپڑجانے کابھی خطرہ رہتا ہےاوربدل جانے کابھی امکان ہوتاہے۔لیکن جب وہ اُس کےمطابق کام کرنے لگتاہے تووہ خیال اس کےاندرجڑپکڑ لیتاہے،اورجوں جوں وہ اس پرعمل کرتاجاتاہے،اس کااستحکام بڑھتاچلا جاتاہے،یہاں تک کہ اس عقیدہ وفکرکابدل جانایا ماند پڑجانا مشکل سے مشکل ترہوتا جاتاہے۔اس نقطہ نظرسے دیکھاجائے تورجوع اِلی اللہ اورخوفِ خداکومستحکم کرنے کےلیے ہرروز پانچ وقت پابندی کے ساتھ نماز اداکرنے سے بڑھ کرکوئی عمل کارگر نہیں ہے۔کیونکہ دوسراجوعمل بھی ہو،اُس کی نوبت دیردیرمیں آتی ہےیامتفرق صورتوں میں مختلف مواقع پرآتی ہے۔لیکن نماز ایک ایساعمل ہے جو ہرچند گھنٹوں کے بعد ایک ہی متعین صورت میں آدمی کودائماً کرنا ہوتاہے،اور اس میں ایمان واسلام کاوہ پوراسبق،جوقرآن نے اسے پڑھایاہے،آدمی کوباربار دُہرانا ہوتا ہےتاکہ وہ اسے بھولنے نہ پائے۔مزید برآں کفاراوراہلِ ایمان،دونوں پریہ ظاہرہوناضروری ہے کہ انسانی آبادی میں سےکس کس نے بغاوت کی روش چھوڑکراطاعتِ رب کی روش اختیارکرلی ہے۔اہلِ ایمان پراِس کا ظہوراس لیے درکار ہےکہ ان کی ایک جماعت اورسوسائٹی بن سکے اور وہ خداکی راہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرسکیں اورایمان و اسلام سے جب بھی ان کے گروہ کے کسی شخص کاتعلق ڈھیلا پڑناشروع ہواسی وقت کوئی کھلی علامت فوراً ہی تمام اہلِ ایمان کواس کی حالت سےباخبرکردے۔کفار پراس کا ظہوراس لیے ضروری ہے کہ ان کےاندرکی سوئی ہوئی فطرت اپنے ہم جنس انسانوں کوخداوندِ حقیقی کی طرف بار بار پلٹتےدیکھ کرجاگ سکے،اورجب تک وہ نہ جاگےان پرخدا کےفرمانبرداروں کی عملی سرگرمی دیکھ دیکھ کردہشت طاری ہوتی رہے۔ان دونوں مقاصد کے لیے بھی اقامتِ صلٰوۃ ہی سب سےزیادہ موزوں ذریعہ ہے۔اس مقام پریہ بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اقامتِ صلٰوۃ کا یہ حکم مکہ معظمہ کےاُس دورمیں دیاگیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک مٹھی بھرجماعت کفارِقریش کے ظلم وستم کی چکی میں پس رہی تھی اوراس کے بعد بھی ۹ برس تک پستی رہی۔اُس وقت دُور دُوربھی کہیں اسلامی حکومت کانام ونشان نہیں تھا۔اگرنمازاسلامی حکومت کےبغیربے معنی ہوتی،جیسا کہ بعض نادان سمجھتے ہیں،یا اقامتِ صلٰوۃ سے مراد نماز قائم کرناسرے سے ہوتا ہی نہیں بلکہ’’نظامِ ربوبیت‘‘چلانا ہوتا،جیساکہ منکرینِ سنت کا دعوٰی ہے،تواس حالت میں قرآن مجید کا یہ حکم دینا آخرکیامعنی رکھتاہے؟اوریہ حکم آنے کے بعد ۹ سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورمسلمان اس حکم کی تعمیل آخرکس طرح کرتے رہے؟ |
2 | یعنی تمہارے دل میں اس بات کاخوف ہوناچاہیے کہ اگراللہ کے پیدائشی بندے ہونے کے باوجود تم نے اس کےمقابلے میں خود مختاری کارویہ اختیارکیا،یااس کے بجائے کسی اورکی بندگی کی تواِس غداری ونمک حرامی کی سخت سزا تمہیں بھگتنی ہوگی۔اس لیے تمہیں ایسی ہرروش سے بچناچاہیے جوتم کوخداکےغضب کامستحق بناتی ہو۔ |
1 | اللہ کی طرف رجوع سے مراد یہ ہے کہ جس نے بھی آزادی وخود مختاری کارویّہ اختیارکرکےاپنےمالکِ حقیقی سے انحراف کیاہو،یاجس نے بھی بندگئِ غیرکاطریقہ اختیارکرکےاپنے اصلی و حقیقی رب سے بےوفائی کی ہو،وہ اپنی اس روش سے بازآجائےاوراُسی ایک خدا کی بندگی کی طرف پلٹ آئے جس کا بندہ حقیقت میں وہ پیداہُوا ہے۔ |
Surah 30 : Ayat 32
مِنَ ٱلَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمْ وَكَانُواْ شِيَعًاۖ كُلُّ حِزْبِۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے1
1 | یہ اشارہ ہےاِس چیزکی طرف کہ نوعِ انسانی کااصل دین دہی دینِ فطرت ہے جس کااوپرذکرکیاگیا ہے۔یہ دین مشرکانہ مذاہب سے بتدریج ارتقاء کرتا ہُواتوحید تک نہیں پہنچاہے،جیساکہ قیاس وگمان سے ایک فلسفہ مذہب گھڑلینے والے حضرات سمجھتےہیں،بلکہ اس کے برعکس یہ جتنے مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں یہ سب کے سب اُس اصلی دین میں بگاڑآنے سے رونماہوئے ہیں۔اور یہ بگاڑاس لیےآیا ہےکہ مختلف لوگوں نے فطری حقائق پراپنی اپنی نوایجاد باتوں کااضافہ کرکےاپنے الگ دین بناڈالے اورہرایک اصل حقیقت کے بجائے اُس اضافہ شدہ چیز کاگرویدہ ہوگیا جس کی بدولت وہ دوسروں سے جدا ہوکرایک مستقل فرقہ بناتھا۔اب جو شخص بھی ہدایت پاسکتاہے وہ اِسی طرح پاسکتاہے کہ اُس اصل حقیقت کی طرف پلٹ جائے جودینِ حق کی بنیاد تھی،اوربعد کے ان تمام اضافوں سے اوران کے گردیدہ ہونے والے گروہوں سے دامن جھاڑکربالکل الگ ہوجائے۔ان کے ساتھ ربط کاجورشتہ بھی وہ لگائے رکھے گاوہی دین میں خلل کاموجب ہوگا۔ |
Surah 30 : Ayat 33
وَإِذَا مَسَّ ٱلنَّاسَ ضُرٌّ دَعَوْاْ رَبَّهُم مُّنِيبِينَ إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَآ أَذَاقَهُم مِّنْهُ رَحْمَةً إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُم بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُونَ
لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اُسے پکارتے ہیں1، پھر جب وہ کچھ اپنی رحمت کا ذائقہ انہیں چکھا دیتا ہے تو یکایک ان میں سے کچھ لوگ شرک کرنے لگتے ہیں2
2 | یعنی پھردوسرے معبودوں کی نذریں اورنیازیں چڑھنی شروع ہوجاتی ہیں اورکہا جانےلگتا ہےکہ یہ مصیبت فلاں حضرت کے طفیل اورفلاں آستانےکےصدقےمیں ٹلی ہے۔ |
1 | یہ اس بات کی کھلی دلیل ہےکہ ان کے دل کی گہرائیوں میں توحید کی شہادت موجود ہے۔اُمیدوں کے سہارے جب بھی ٹوٹنے لگتے ہیں،ان کادل خود ہی اندرسےپکارنے لگتا ہےکہ اصل فرمانروائی کائنات کے مالک ہی کی ہےاوراسی کی مدد ان کی بگڑی بنا سکتی ہے۔ |
Surah 30 : Ayat 34
لِيَكْفُرُواْ بِمَآ ءَاتَيْنَـٰهُمْۚ فَتَمَتَّعُواْ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ
تاکہ ہمارے کیے ہوئے احسان کی ناشکری کریں اچھا، مزے کر لو، عنقریب تمہیں معلوم ہو جائے گا
Surah 30 : Ayat 35
أَمْ أَنزَلْنَا عَلَيْهِمْ سُلْطَـٰنًا فَهُوَ يَتَكَلَّمُ بِمَا كَانُواْ بِهِۦ يُشْرِكُونَ
کیا ہم نے کوئی سند اور دلیل ان پر نازل کی ہے جو شہادت دیتی ہو اس شرک کی صداقت پر جو یہ کر رہے ہیں؟1
1 | یعنی آخرکس دلیل سےان لوگوں کویہ معلوم ہُواکہ بلا میں خدانہیں ٹالتابلکہ حضرت ٹالا کرتے ہیں؟کیاعقل اس کی شہادت دیتی ہے؟یاکوئی کتابِ الٰہی ایسی ہےجس میں اللہ تعالٰی نے یہ فرمایاہوکہ میں اپنے خدائی کےاختیارات فلاں فلاں حضرتوں کودے چکاہوں اوراب وہ تم لوگوں کےکام بنایاکریں گے؟ |
Surah 30 : Ayat 36
وَإِذَآ أَذَقْنَا ٱلنَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُواْ بِهَاۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةُۢ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ
جب ہم لوگوں کو رحمت کا ذائقہ چکھاتے ہیں تو وہ اس پر پھول جاتے ہیں، اور جب ان کے اپنے کیے کرتوتوں سے ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یکایک وہ مایوس ہونے لگتے ہیں1
1 | اوپرکی آیت میں انسان کی جہالت وحماقت اوراس کی ناشکری ونمک حرامی پرگرفت تھی۔اِس آیت میں اس کے چھچھورپن اورکم ظرفی پرگرفت کی گئی ہے۔اس تُھڑدے کوجب دنیامیں کچھ دولت،طاقت،عزت نصیب ہوجاتی ہے اوریہ دیکھتا ہےکہ اس کاکام خوب چل رہاہےتواِسےیاد نہیں رہتاکہ یہ سب کچھ اللہ کادیا ہے۔یہ سمجھتا ہےکہ میرےہی کچھ سرخاب کے پرلگے ہوئے ہیں جومجھے وہ کچھ میسرہُوا جس سےدوسرے محروم ہیں۔اس غلط فہمی میں فخروغرورکانشہ اس پرایسا چڑھتا ہےکہ پھریہ نہ خداکوخاطرمیں لاتاہے نہ خلق کو۔لیکن جونہی کہ اقبال نے منہ موڑااِس کی ہمت جواب دے جاتی ہےاوربدنصیبی کی ایک ہی چوٹ اس پردل شکستگی کی وہ کیفیت طاری کردیتی ہےجس میں یہ ہرذلیل سے ذلیل حرکت کرگزرتاہے،حتٰی کہ خود کشی تک کرجاتاہے۔ |
Surah 30 : Ayat 37
أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّ ٱللَّهَ يَبْسُطُ ٱلرِّزْقَ لِمَن يَشَآءُ وَيَقْدِرُۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ اللہ ہی رزق کشادہ کرتا ہے جس کا چاہتا ہے اور تنگ کرتا ہے (جس کا چاہتا ہے) یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں1
1 | یعنی اہلِ ایمان اس سے سبق حاصل کرسکتےہیں کہ کفروشرک کاانسان کے اخلاق پرکیااثر پڑتا ہے،اوراس کےبرعکس ایمان باللہ کے اخلاقی نتائج کیاہیں۔جوشخص سچے دل سےخداپرایمان رکھتاہواوراسی کورزق کے خزانوں کامالک سمجھتا ہو،وہ کبھی اُس کم ظرفی میں مبتلا نہیں ہوسکتا جس میں خداکوبھولے ہوئے لوگ مبتلا ہوتے ہیں۔اُسے کشادہ رزق ملے توپھولےگانہیں،شکرکرے گا،خلقِ خداکےساتھ تواضع اورفیاضی سے پیش آئے گا،اورخداکامال خدا کی راہ میں صرف کرنے سےہرگزدریغ نہ کرے گا۔تنگی کے ساتھ رزق ملے،یافاقےہی پڑجائیں،تب بھی صبرسےکام لے گا،دیانت وامانت اورخودداری کوہاتھ سےنہ دےگا،اورآخرت وقت تک خداسےفضل وکرم کی آس لگائےرہےگا۔یہ اخلاقی بلندی نہ کسی دہریے کونصیب ہوسکتی ہےنہ مشرک کو۔ |
Surah 30 : Ayat 38
فَـَٔـاتِ ذَا ٱلْقُرْبَىٰ حَقَّهُۥ وَٱلْمِسْكِينَ وَٱبْنَ ٱلسَّبِيلِۚ ذَٲلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
پس (اے مومن) رشتہ دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافر کو (اُس کا حق)1 یہ طریقہ بہتر ہے اُن لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوں، اور وہی فلاح پانے والے ہیں2
2 | یہ مطلب نہیں ہےکہ فلاح صرف مسکین اورمسافراوررشتہ دارکاحق اداکردینےسےحاصل ہوجاتی ہے،اس کےعلاوہ اورکوئی چیز حصُول فلاح کےلیے درکارنہیں ہے۔بلکہ مطلب یہ ہےکہ انسانوں میں سے جولوگ اِن حقوق کونہیں پہچانتےاورنہیں اداکرتےوہ فلاح پانے والےنہیں ہیں،بلکہ فلاح پانے والےوہ ہیں جوخالص اللہ کی خوشنودی کےلیےیہ حقوق پہچانتے اوراداکرتے ہیں۔ |
1 | یہ نہیں فرمایا کہ رشتہ دار،مسکین اورمسافرکوخیرات دے۔ارشادیہ ہُوا ہےکہ یہ اُس کا حق ہےجوتجھےدیناچاہیے،اورحق ہی سمجھ کرتواسےدے۔اس کودیتےہوئےیہ خیال تیرےدل میں نہ آنےپائےکہ یہ کوئی احسان ہےجوتواس پرکررہا ہے،اورتو کوئی بڑی ہستی ہےدان کرنے والی،اوروہ کوئی حقیرمخلوق ہےتیرادیاکھانے والی۔بلکہ یہ بات اچھی طرح تیرےذہن نشین رہے کہ مال کےمالک حقیقی نے اگرتجھےزیادہ ہےاوردوسرے بندوں کوکم عطا فرمایا ہےتویہ زائد مال اُن دوسروں کاحق ہےجوتیری آزمائش کےلیے تیرےہاتھ میں دے دیاگیا ہےتاکہ تیرامالک دیکھے کہ توان کاحق پہچانتا اورپہنچاتا ہےیانہیں۔اس ارشاد الٰہی اوراس کی اصلی روح پرجوشخص بھی غورکرے گاوہ یہ محسوس کیے بغیرنہیں رہ سکتاکہ قرآن مجید انسان کےلیےاخلاقی وروحانی ارتقاءکاجوراستہ تجویزکرتا ہےاس کےلیےایک آزاد معاشرہ اورآزاد معیشت(Free Economy)کی موجودگی ناگزیرہے۔یہ ارتقاءکسی ایسےاجتماعی ماحول میں ممکن نہیں ہے جہاں لوگوں کےحقوقِ ملکیت ساقط کردیےجائیں،ریاست تمام ذرائع کی مالک ہوجائے اورافراد کےدرمیان تقسیم رزق کاپوراکاروبارحکومت کی مشینری سنبھال لے،حتٰی کہ نہ کوئی فرد اپنےاوپرکسی کاکوئی حق پہچان کردےسکے،اورنہ کوئی دوسرافردکسی سےکچھ لےکراس کےلیےاپنےدل میں کوئی جذبہ خیرسگالی پرورش کرسکے۔اس طرح کاخالص کمیونسٹ نظامِ تمّدن ومعیشت،جسےآج کل ہمارے ملک میں’’قرآنی نظامِ ربوبیت‘‘کےپرفریب نام سےزبردستی قرآن کے سرمنڈھا جارہاہے،قرآن کی اپنی اسکیم کےبالکل خلاف ہے،کیونکہ اس میں انفرادی اخلاق کےنشوونمااورانفرادی سیرتوں کی تشکیل وترقی کادروازہ قطعًابند ہوجاتاہے۔قرآن کی اسکیم تواُسی جگہ چل سکتی ہےجہاں افراد کچھ وسائلِ دولت کےمالک ہوں،اُن پرآزادانہ تصّرف کےاختیارات رکھتےہوں،اورپھراپنی رضاورغبت سےخدااوراس کےبندوں کےحقوق اخلاص کےساتھ اداکریں۔اِسی قسم کےمعاشرےمیں یہ امکان پیداہوتا ہےکہ فرداً فرداً لوگوں میں ایک طرف ہمدردی،رحم وشفقت،ایثاروقربانی اورحق شناسی وادائے حقوق کےاعلٰی اوصاف پیداہوں،اوردوسری طرف جن لوگوں کےساتھ بھلائی کی جائےان کےدلوں میں بھلائی کرنےوالوں کےلیےخیرخواہی،احسان مندی،اورجزاءالاحسان بالاحسان کےپاکیزہ جذبات نشوونماپائیں،یہاں تک کہ وہ مثالی حالت پیداہوجائےجس میں بدی کارُکنااورنیکی کافروغ پاناکسی قوتِ جابرہ کی مداخلت پرموقوف نہ ہو،بلکہ لوگوں کی اپنی پاکیزگئ نفس اوران کےاپنےنیک ارادےاس ذمہ داری کوسنبھال لیں۔ |
Surah 30 : Ayat 39
وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَاْ فِىٓ أَمْوَٲلِ ٱلنَّاسِ فَلَا يَرْبُواْ عِندَ ٱللَّهِۖ وَمَآ ءَاتَيْتُم مِّن زَكَوٲةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ ٱللَّهِ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُضْعِفُونَ
جو سُود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا1، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے در حقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں2
2 | اس بڑھوتری کےلیے کوئی حدمقررنہیں ہے۔جتنی خالص نیت اورجتنےگہرے جذبہٴ ایثاراورجس قدرشدیدطلب رضائے الٰہی کےساتھ کوئی شخص راہِ خدامیں مال صرف کرےگااسی قدراللہ تعالٰی اس کا زیادہ سےزیادہ اجردےگا۔چنانچہ ایک صحیح حدیث میں آیاہےکہ اگرایک شخص راہِ خدامیں ایک کھجوربھی دےتواللہ تعالٰی اس کوبڑھاکراُحدپہاڑکےبرابرکردیتاہے۔ |
1 | قرآن مجید میں یہ پہلی آیت ہےجوسود کی مذمت میں نازل ہوئی۔اس میں صرف اتنی بات فرمائی گئی ہے کہ تم لوگ توسود یہ سمجھتے ہوئےدیتے ہوکہ جس کوہم یہ زائدمال دےرہےہیں اس کی دولت بڑھےگی،لیکن درحقیقت اللہ کےنزدیک سود سےدولت کی افزائش نہیں ہوتی بلکہ زکوٰۃ سےہوتی ہے۔آگےچل کرجب مدینہ طیبہ میں سود کی حرمت کاحکم نازل کیاگیا تواس پرمزید یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ یَمحَقُ اللہُ الّرِبٰووَ یُربِی الصَّدَقٰتِ،’’اللہ سود کامَٹھ ماردیتاہےاورصدقات کونشوونمادیتاہے‘‘۔(بعد کےاحکام کےلیےملاحظہ ہوآل عمران،آیت ۱۳۰۔البقرہ،آیت ۷۵ تا۲۸۱)۔اس آیت کی تفسیرمیں مفسرین کےدواقوال ہیں۔ایک گروہ کہتا ہےکہ یہاں ربٰوسےمرادوہ سود نہیں ہےجوشرعًاحرام کیاگیا ہے،بلکہ وہ عطیہ یاہدیہ وتحفہ ہےجواِس نیت سےدیاجائے کہ لینے والا بعد میں اس سےزیادہ واپس کرےگا،یامُعطی کےلیےکوئی مفید خدمت انجام دےگا،یااس کاخوشحال ہوجانامعطی کی اپنی ذات کےلیےنافع ہوگا۔یہ ابنِ عباسؓ،مجاہدؓ،ضحاکؓ،قتادہ،عِکرِمَہ،محمدبن کَعُب القَرظِی اورشعبِی کاقول ہے۔اورغالبًایہ تفسیراِن حضرات نےاس بناپرفرمائی ہےکہ آیت میں اِس فعل کانتیجہ صرف اتناہی بتایاگیاہےکہ اللہ کےہاں اس دولت کوکوئی افزائش نصیب نہ ہوگی،حالانکہ اگرمعاملہ اُس سود کاہوتاجسےشریعت نےحرام کیاہےتومثبت طورپرفرمایاجاتا کہ اللہ کے ہاں اس پرسخت عذاب دیاجائےگا۔دوسراگروہ کہتاہےکہ نہیں اس سےمراد وہی معروف ربٰوہےجسےشریعت نےحرام کیا ہے۔یہ رائےحضرت حسن بصری اورسُدّی کی ہےاورعلامہ آلوسی کاخیال ہےکہ آیت کاظاہری مفہوم یہی ہے،کیونکہ عربی زبان میں ربٰوکالفظ اسی معنی کےلیےاستعمال ہوتاہے۔اسی تاویل کومفسرنیسابوری نےبھی اختیارکیاہے۔ہمارے خیال میں بھی یہی دوسری تفسیرصحیح ہے،اس لیےکہ معروف معنی کوچھوڑنے کےلیےوہ دلیل کافی نہیں ہےجواوپرتفسیرِاول کےحق میں بیان ہوئی ہے۔سورہ روم کانزول جس زمانے میں ہوا ہےاُس وقت قرآن مجید میں سود کی حرمت کااعلان نہیں ہواتھا۔یہ اعلان اس کےکئی برس بعد ہُواہے۔قرآن مجید کاطریقہ یہ ہےکہ جس چیزکوبعدمیں کسی وقت حرام کرناہوتاہے،اس کےلیےوہ پہلےسےذہنوں کوتیارکرناشروع کردیتاہے۔شراب کےمعاملے میں بھی پہلےصرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ وہ پاکیزہ رزق نہیں ہے(النحل آیت ۶۷)پھرفرمایاکہ اس کاگناہ اس کےفائدےسےزیادہ ہے(البقرہ ۲۱۹)،پھرحکم دیاگیا کہ نشےکی حالت میں نمازکےقریب نہ جاؤ(النساء ۴۳)،پھراس کی قطعی حرمت کافیصلہ کردیاگیا۔اسی طرح یہاں سود کےمتعلق صرف اتنا کہنےپراکتفاکیاگیاہےکہ یہ وہ چیزنہیں ہےجس سےدولت کی افزائش ہوتی ہو،بلکہ حقیقی افزائش زکٰوۃ سے ہوتی ہے۔اس کےبعد سود درسودکومنع کیاگیا(آل عمران،آیت ۱۳۰)۔اورسب سےآخرمیں بجائےخود سود ہی کی قطعی حرمت کافیصلہ کردیاگیا(البقرہ،آیت ۵)۔ |
Surah 30 : Ayat 40
ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَكُمْ ثُمَّ رَزَقَكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْۖ هَلْ مِن شُرَكَآئِكُم مَّن يَفْعَلُ مِن ذَٲلِكُم مِّن شَىْءٍۚ سُبْحَـٰنَهُۥ وَتَعَـٰلَىٰ عَمَّا يُشْرِكُونَ
اللہ ہی1 ہے جس نے تم کو پیدا کیا، پھر تمہیں رزق دیا2، پھر وہ تمہیں موت دیتا ہے، پھر وہ تمہیں زندہ کرے گا کیا تمہارے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ایسا ہے جو ان میں سے کوئی کام بھی کرتا ہو؟3 پاک ہے وہ اور بہت بالا و برتر ہے اُس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں؟
3 | یعنی اگرتمہارے بنائےہوئےمعبودوں میں سےکوئی بھی نہ پیداکرنےوالاہے،نہ رزق دینے والا،نہ موت وزیست اس کےقبضہٴ قدرت میں ہے،اورنہ مرجانے کےبعد وہ کسی کوزندہ کردینے پرقادرہے،توآخریہ لوگ ہیں کس مرض کی دواکہ تم نےاِنہیں معبُود بنالیا؟ |
2 | یعنی زمین میں تمہارے رزق کےلیے جملہ وسائل فراہم کیےاورایساانتظام کردیا کہ رزق کی گردش سےہرایک کوکچھ نہ کچھ حصّہ پہنچ جائے۔ |
1 | یہاں سےپھرکفارومشرکین کوسمجھانےکےلیےسلسلہٴکلام توحیدوآخرت کےمضمون کی طرف پھرجاتاہے |