Surah 30 : Ayat 21
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦٓ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَٲجًا لِّتَسْكُنُوٓاْ إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةًۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں1 تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو2 اور تمہارے درمیان محبّت اور رحمت پیدا کر دی3 یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں
3 | محبت سےمراد یہاں جنسی محبت(Sexual Love)ہے جومرد اورعورت کےاندرجذب وکشش کی ابتدائی محرک بنتی ہےاورپھرانہیں ایک دوسرےسےچسپاں کیے رکھتی ہے۔اوررحمت سےمراد وہ روحانی تعلق ہےجوازدواجی زندگی میں بتدریج ابھرتا ہے،جس کی بدولت وہ ایک دوسرےکےخیرخواہ،ہمدرد وغم خواراورشریکِ رنج وراحت بن جاتےہیں،یہاں تک کہ ایک وقت ایساآتاہےجب جنسی محبت پیچھے جاپڑتی ہے اوربڑھاپے میں یہ جیون ساتھی کچھ جوانی سے بھی بڑھ کرایک دوسرے کے حق میں رحیم وشفیق ثابت ہوتے ہیں۔یہ دومثبت طاقتیں ہیں جوخالق نےاُس ابتدائی اضطراب کی مدد کےلیے انسان کے اندرپیدا کی ہیں جس کاذکراوپرگزراہے۔وہ اضطراب توصرف سکون چاہتاہےاس کی تلاش میں مرد وعورت کو ایک دوسے کی طرف لے جاتاہے۔اس کے بعد یہ دو طاقتیں آگے بڑھ کران کےدرمیان مستقل رفاقت کاایسارشتہ جوڑ دیتی ہیں جودوالگ موحولوں میں پرورش پائےہوئےاجنبیوں کوملاکرکچھ اس طرح پیوستہ کرتا ہےکہ عمربھروہ زندگی کے منجدھارمیں اپنی کشتی ایک ساتھ کھینچتےرہتے ہیں۔ظاہرہےکہ یہ محبت ورحمت جس کاتجربہ کروڑوں انسانوں کواپنی زندگی میں ہورہاہے،کوئی مادی چیزنہیں ہےجووزن اورپیمائش میں آسکے،نہ انسانی جسم کے عناصرترکیبی میں کہیں اس کے سرچشمے کی نشان دہی کی جاسکتی ہے،نہ کسی لیبارٹری میں اس کی پیدائش اوراس کے نشوونما کے اسباب کاکھوج لگایاجاسکتا ہے۔اس کی کوئی توجیہ اس کے سوانہیں کی جاسکتی کہ ایک خالقِ حکیم نے بالاراہ ایک مقصد کے لیے پوری مناسبت کےساتھ اسے نفسِ انسانی میں ودیعت کردیاہے۔ |
2 | یعنی یہ انتظام الل ٹپ نہیں ہوگیاہے بلکہ بنانے والےنےبالارادہ اِس غرض کےلیے یہ انتظام کیاہے کہ مرداپنی فطرت کے تقاضے عورت کےپاس،اورعورت اپنی فطرت کی مانگ مردکےپاس پائے،اوردونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہوکرہی سکون واطمینان حاصل کریں۔یہی وہ حکیمانہ تدبیرہے جسے خالق نے ایک طرف انسانی نسل کےبرقراررہنےکا،اوردوسری طرف انسانی تہذیب وتمدن کووجود میں لانےکاذریعہ بنایاہے۔اگردونوں صنفیں محض الگ الگ ڈیزائنوں کےساتھ پیداکردی جاتیں اوران میں وہ اضطراب نہ رکھ دیاجاتاجواُن کےباہمی اتصال ووابستگی کے بغیرمبدّل بسکون نہیں ہوسکتا،توانسانی نسل توممکن ہےکہ بھیڑبکریوں کی طرح چل جاتی،لیکن کسی تہذیب وتمدن کےوجود میں آنےکاکوئی امکان نہ تھا۔تمام انواع حیوانی کےبرعکس نوع انسانی میں تہذیب وتمدن کےرونما ہونے کابنیادی سبب یہی ہےکہ خالق نےاپنی حکمت سے مرداورعورت میں ایک دوسرے کےلیے وہ مانگ،وہ پیاس،وہ اضطراب کی کیفیت رکھ دی جسے سکون میسرنہیں آتاجب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جُڑ کرنہ رہیں۔یہی سکون کی طلب ہے جس نےانہیں مل کرگھربنانےپرمجبورکیا۔اسی کی بدولت خاندان اورقبیلے وجود میں آئے۔اوراسی کی بدولت انسان کی زندگی میں تمدّن کانشوونما ہُوا۔اس نشوونمامیں انسان کی ذہنی صلاحیتیں مددگارضرور ہوئی ہیں مگروہ اس کی اصلی محرک نہیں ہیں۔اصل محرک یہی اضطراب ہےجسےمرد وعورت کےوجود میں ودیعت کرکےانہیں’’گھر‘‘کی تاسیس پرمجبورکردیاگیا۔کون صاحبِ عقل یہ سوچ سکتاہےکہ دانائی کا یہ شاہکارفطرت کی اندھی طاقتوں سےمحض اتفاقًاسرزد ہوگیاہے؟یابہت سے خدایہ انتظام کرسکتےتھےکہ اس گہرےحکیمانہ مقصد کوملحوظ رکھ کرہزارہابرس سےمسلسل بےشمارمردوں اوربےشمارعورتوں کویہ خاص اضطراب لیے ہوئے پیداکرتے چلےجائیں؟یہ توایک حکیم اورایک ہی حکیم کی حکمت کاصریح نشان ہےجسےصرف عقل کےاندھے ہی دیکھنےسے انکارکرسکتے ہیں۔ |
1 | یعنی خالق کاکمالِ حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صنف نہیں بنائی،بلکہ اسے دو صنفوں(Sexes) کی شکل میں پیداکیاجوانسانیت میں یکساں ہیں،جن کی بناوٹ کوبنیادی فارمولا بھی یکساں ہے،مگردونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت،مختلف ذہنی ونفسی اوصاف،اورمختلف جذبات واعیات لےکرپیدا ہوتی ہیں۔اورپھران کے درمیان یہ حیرگ انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہےکہ ان میں سے ہرایک دوسرے کوپوراجوڑاہے،ہرایک کاجسم اوراس کے نفسیات وواعیات دوسرے کے جسمانی ونفسیاتی تقاضوں کامکمل جواب ہیں۔مزیدبرآں وہ خالقِ حکیم ان دونوں صنفوں کےافراد کوآغازِآفرینش سےبرابراس تناسب کے ساتھ پیداکیے چلاجارہاہے کہ آج تک کبھی ایسانہیں ہُواکہ دنیا کی کسی قوم یاکسی خطہ زمین میں صرف لڑکے ہی لڑکے پیداہوئےہوں،یاکہیں کسی قوم میں صرف لڑکیاں ہی لڑکیاں پیداہوتی چلی گئی ہوں۔یہ ایسی چیزہےجس میں کسی انسانی تدبیرکاقطعًاکوئی دخل نہیں ہے۔انسان ذرہ برابربھی نہ اِس معاملہ میں اثرانداز ہوسکتاہےکہ لڑکیاں مسلسل ایسی زنانہ خصوصیات اورلڑکے مسلسل ایسی مردانہ خصوصیات لیے ہوئے پیداہوتے رہیں جوایک دوسرے کاٹھیک جوڑ ہوں،اورنہ اس معاملہ ہی میں اس کے پاس اثراندازہونےکاکوئی ذریعہ ہےکہ عورتوں اورمردوں کی پیدائش اس طرح مسلسل ایک تناسب کے ساتھ ہوتی چلی جائے۔ہزارہا سال سےکروڑوں اوراربوں انسانوں کی پیدائش میں اس تدبیروانتظام کااتنے متناسب طریقےسےپیہم جاری رہنااتفاقًابھی نہیں ہوسکتا،اوریہ بہت سے خداؤں کی مشترک تدبیرکانتیجہ بھی نہیں ہوسکتا۔یہ چیزصریحًااس بات پردلالت کررہی ہےکہ ایک خالقِ حکیم،اورایک ہی خالقِ حکیم نےاپنی غالب حکمت وقدرت سے ابتداءًمرد اورعورت کاایک موزوں ترین ڈیزائن بنایا،پھراس بات کاانتظام کیاکہ اس ڈیزائن کے مطابق بے حدوحساب مرد اوربے حدوحساب عورتیں اپنی الگ الگ انفرادی خصوصیات لیے ہوئے دنیابھرمیں ایک تناسب کے ساتھ پیداہوں۔ |
Surah 30 : Ayat 22
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦ خَلْقُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَٱخْتِلَـٰفُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَٲنِكُمْۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّلْعَـٰلِمِينَ
اور اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی پیدائش1، اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے2 یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں دانشمند لوگوں کے لیے
2 | یعنی باوجود یکہ تمہارے قوائےنطقیہ یکساں ہیں،نہ منہ اورزبان کی ساخت میں کوئی فرق ہےاورنہ دماغ کی ساخت میں،مگرزمین کےمختلف خطوں میں تمہاری زبانیں مختلف ہیں،پھرایک ہی زبان بولنےوالے علاقوں میں شہرشہراوربستی بستی کی بولیاں مختلف ہیں،اورمزید یہ کہ ہرشخص کالہجہ اورتلفُّظ اورطرزِگفتگودوسرے سےمختلف ہے۔اسی طرح تمہارامادّہ تخلیق اورتمہاری بناوٹ کافارمولا ایک ہی ہے،مگرتمہارےرنگ اس قدرمختلف ہیں کہ قوم اورقوم تودرکنار،ایک مان باپ کے دو بیٹوں کارنگ بھی بالکل یکساں نہیں ہے۔یہاں نمونے کے طورپرصرف دوہی چیزوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔لیکن اسی رُخ پرآگےبڑھ کردیکھیے تودنیامیں آپ ہرطرف انتاتنُوع(VARIATY)پائیں گے کہ اس کااحاطہ مشکل ہوجائے گا۔انسان،حیوان،نباتات اوردوسری تمام اشیاء کی جس نوع کوبھی آپ لےلیں اس کےافراد میں بنیادی یکسانی کے باوجود بے شماراختلافات موجود ہیں حتٰی کہ کسی نوع کابھی کوئی ایک فرد دوسرےسےبالکل مشابہ نہیں ہے،حتٰی کہ ایک درخت کے دوپتوں میں بھی پوری مشابہت نہیں پائی جاتی۔یہ چہز صاف بتارہی ہے کہ یہ دنیاکوئی ایساکارخانہ نہیں ہےجس میں خود کارمشینیں چل رہی ہوں اورکثیرپیداآوری(Mass Production)کے طریقے پرہرقسم کی اشیاءکابس ایک ایک ٹھپّہ ہوجس سے ڈھل ڈھل کرایک ہی طرح کی چیزیں نکلتی چلی آرہی ہوں۔بلکہ یہاں ایک ایسازبردست کاریگرکام کررہاہے جوہرہرچیز کوپوری انفرادی توجہ کے ساتھ ایک نئےڈیزائن،نئے نقش ونگار،نئےتناسُب اورنئےاوصاف کے ساتھ بناتا ہےاوراس کی بنائی ہوئی ہرچیز اپنی جگہ منفرد ہے۔اس کی قوت ایجاد ہرآن ہرچیزکاایک نیاماڈل نکال رہی ہے،اوراس کی صناعی ایک ڈیزائن کو دوسری مرتبہ دوہرانااپنے کمال کوتوہین سمجھتی ہے۔اس حیرت انگیزمنظرکوجوشخص بھی آنکھیں کھول کردیکھےگاوہ کبھی اس احمقانہ تصورمیں مبتلانہیں ہوسکتاکہ اس کائنات کابنانے والاایک دفعہ اس کارخانے کوچلاکرکہیں جاسویاہے۔یہ تواس بات کاکھلا ثبوت ہے کہ وہ ہروقت کارِتخلیق میں لگاہواہےاوراپنی خلق کی ایک ایک چیزپرانفرادی توجہ صرف کررہاہے۔ |
1 | یعنی اُن کاعدم سے وجود میں آنا،اورایک اٹل ضابطے پران کاقائم ہونا،اوربےشمارقوتوں کاان کے اندرانتہائی تناسُب وتوازُن کے ساتھ کام کرنا،اپنے اندراس بات کی بہت سی نشانیاں رکھتا ہےکہ اس پوری کائنات کو ایک خالق اورایک ہی خالق وجود میں لایاہے،اوروہی اس عظیم الشان نظام کی تدبیرکررہاہے۔ایک طرف اگراس بات پرغورکیاجائے کہ وہ ابتدائی قوت(Energy)کہاں سے آئی جس نے مادےکی شکل اختیارکی،پھرمادّے کےیہ بہت سےعناصرکیسےبنے،پھران عناصرکی اس قدرحکیمانہ ترکیب سےاتنی حیرت انگیزمناسبتوں کےساتھ یہ مدہوش کن نظامِ عالم کیسےبن گیا،اوراب یہ نظام کررڑہاکروڑ صدیوں سے کس طرح ایک زبردست قانونِ فطرت کی بندش میں کساہواچل رہاہے،توہرغیرمتعصب عقل اس نتیجےپرپہنچےگی کہ یہ سب کچھ کسی علیم وحکیم کےغالب ارادے کےبغیرمحض بختِ واتفاق کےنتیجےمیں نہیں ہوسکتا۔اوردوسری طرف اگریہ دیکھاجائے کہ زمین سےلےکرکائنات کے بعید ترین سیاروں تک سب ایک ہی طرح کےعناصرسےمرکب ہیں اورایک ہی قانونِ فطرت ان میں کارفرماہےتوہرعقل جوہٹ دھرم نہیں ہے،بلاشبہہ یہ تسلیم کرے گی کہ یہ سب کچھ بہت سےخداؤں کی خدائی کاکرشمہ نہیں ہےبلکہ ایک ہی خدااس پوری کائنات کاخالق اوررب ہے۔ |
Surah 30 : Ayat 23
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦ مَنَامُكُم بِٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ وَٱبْتِغَآؤُكُم مِّن فَضْلِهِۦٓۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ
اور اُس کی نشانیوں میں سے تمہارا رات اور دن کو سونا اور تمہارا اس کے فضل کو تلاش کرنا ہے1 یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو (غور سے) سُنتے ہیں
1 | فضل کوتلاش کرنے سےمراد رزق کی تلاش میں دوڑدھوپ کرناہے۔انسان اگرچہ بالعموم رات کوسوتااوردن کواپنی معاش کےلیے جدوجہد کرتاہے،لیکن یہ کُلیہ نہیں ہے۔بہت سے انسان دن کوبھی سوتے اوررات کوبھی معاش کےلیے کام کرتےہیں۔اسی لیے رات اوردن کااکٹھاذکرکرکےفرمایا کہ ان دونوں اوقات میں تم سوتے بھی ہواوراپنی معاش کےلیے دوڑدھوپ بھی کرتےہو۔یہ چیز بھی اُن نشانیوں میں سے ہےجوایک خالقِ حکیم کی تدبیرکاپتہ دیتی ہیں۔بلکہ مزیدبرآں یہ چیزاس بات کی نشان دہی بھی کرتی ہے کہ وہ محض خالق ہی نہیں ہے بلکہ اپنی مخلوق پرغایت درجہ رحیم وشفیق اوراس کی ضروریات اورمصلحتوں کےلیےخوداُس سےبڑھ کرفکرکرنے والاہے۔انسان دنیامیں مسلسل محنت نہیں کرسکتا بلکہ ہرچند گھنٹوں کی محنت کےبعد اسے چند گھنٹوں کےلیے آرام درکارہوتاہے تاکہ پھرچند گھنٹے محنت کرنے کےلیے اسے قوت بہم پہنچ جائے۔اس غرض کےلیے خالقِ حکیم ورحیم نے انسان کےاندرصرف تکان کااحساس اورصرف آرام کی خواہش پیداکردینے ہی پراکتفانہیں کیا،بلکہ اس نے’’نیند‘‘کاایک ایسازبردست داعیہ اس کےوجود میں رکھ دیاجواس کےارادے کےبغیر،حتٰی کہ اس کی مزاحمت کےباوجود،خودبخود ہرچند گھنٹوں کی بیداری ومحنت کےبعداسےآدبوچتاہے،چند گھنٹےآرام لینے پراس کومجبورکردیتاہے،اورضرورت پوری ہوجانے کے بعدخودبخود اسےچھوڑدیتاہے۔اس نیند کی ماہیت وکیفیت اوراس کے حقیقی اسباب کوآج تک انسان نہیں سمجھ سکاہے۔یہ قطعًاایک پیدائشی چیز ہےجوآدمی کی فطرت اوراس کی ساخت میں رکھ دی گئی ہے۔اس کاٹھیک انسان کی ضرورت کے مطابق ہونا ہی اس بات کی شہادت دینے کےلیےکافی ہےکہ یہ ایک اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ کسی حکیم نے ایک سوچےسمجھےمنصوبے کے مطابق یہ تدبیروضع کی ہے۔اس میں ایک بڑی حکمت ومصلحت اورمقصدیت صاف طورپرکارفرمانظرآتی ہے۔مزیدبرآں یہی نینداس بات پربھی گواہ ہےکہ جس نے یہ مجبورکُن داعیہ انسان کےاندررکھاہےوہ انسان کےحق میں خود اس سےبڑھ کرخیرخواہ ہے،ورنہ انسان بالارادہ نیند کی مزاحمت کرکے اورزبردستی جاگ جاگ کراورمسلسل کام کرکرکےاپنی قوتِ کارکوہی نہیں،قوتِ حیات تک کو ختم کرڈالتا۔پھر رزق کی تلاش کے لیے’’اللہ کے فضل کی تلاش‘‘کا لفظ استعمال کرکے نشانیوں کے ایک دوسرے سلسلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔آدمی آخریہ رزق تلاش ہی کہاں کرسکتا تھااگرزمین و آسمان کی بے حدوحساب طاقتوں کورزق کے اسباب وذرائع پیدا کرنے میں نہ لگادیاگیا ہوتا،اورزمین میں انسان کے لیےرزق کےبےشمارذرائع نہ پیداکردیے گئےہوتے۔صرف یہ نہیں،بلکہ رزق کی یہ تلاش اوراس کااکتساب اُس صورت میں بھی ممکن نہ ہوتااگرانسان کو اس کام کےلیے مناسب ترین اعضاءاورمناسب ترین جسمانی اورذہنی صلاحیتیں نہ دی گئی ہوتیں۔پس آدمی کےاندرتلاشِ رزق کی قابلیت‘اوراُس کےوجود سے باہروسائلِ رزق کی موجودگی،صاف صاف ایک رَبِ رحیم و کریم کے وجود کا پتہ دیتی ہے۔جوعقل بیمارنہ ہووہ کبھی یہ فرض نہیں کرسکتی کہ یہ سب کچھ اتفاقًاہوگیاہے،یایہ بہت سےخداؤں کی خدائی کاکرشمہ ہے،یا کوئی بےدرداندھی قوت اس فضل وکرم کی ذمہ دار ہے۔ |
Surah 30 : Ayat 24
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦ يُرِيكُمُ ٱلْبَرْقَ خَوْفًا وَطَمَعًا وَيُنَزِّلُ مِنَ ٱلسَّمَآءِ مَآءً فَيُحْىِۦ بِهِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَآۚ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ تمہیں بجلی کی چمک دکھاتا ہے خوف کے ساتھ بھی اور طمع کے ساتھ بھی1 اور آسمان سے پانی برساتا ہے، پھر اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے2 یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں
2 | یہ چیز ایک طرف حیات بعدالموت کی نشان دہی کرتی ہے،اوردوسری طرف یہی چیزاس امرپربھی دلالت کرتی ہے کہ خداہےاورزمین وآسمان کی تدبیرکرنے والاایک ہی خداہے۔زمین کی بےشمارمخلوقات کے رزق کاانحصاراُس پیداوارپرہےجوزمین سے نکلتی ہے۔اس پیداوارکاانحصارزمین کی صلاحیتِ بارآوری پرہے۔اس صلاحیت کےروبکارآنےکاانحصاربارش پرہے،خواہ وہ براہِ راست زمین پربرسے،یااس کےذخیرے سطحِ زمین پرجمع ہوں،یازیرزمین چشموں اورکنوؤں کی شکل اختیارکریں،یاپہاڑوں پریخ بستہ ہوکردریاؤں کی شکل میں بہیں۔پھراس بارش کاانحصارسورج کی گرمی پر،موسموں کےردوبدل پر،فضائی حرارت وبرودت پر،ہواؤں کی گردش پر،اوراُس بجلی پرہےجوبادلوں سےبارش برسنے کی محرک بھی ہوتی ہےاورساتھ ہی ساتھ بارش کے پانی میں ایک طرح کی قدرتی کھاد بھی شامل کردیتی ہے۔زمین سے لے کرآسمان تک کی اِن تمام مختلف چیزوں کے درمیان یہ ربط اورمباسبتیں قائم ہونا،پھران سب کابےشمارمختلف النوع مقاصداورمصلحتوں کے لیےصریحًا ساز گارہونا،اورہزاروں لاکھوں برس تک ان کاپوری ہم آہنگی کے ساتھ مسلسل سازگاری کرتے چلے جانا،کیا یہ سب کچھ محض اتفاقًاہوسکتا ہے؟کیایہ کسی صانع کی حکمت اوراس کے سوچے سمجھے منصوبے اوراس کی غالب تدبیرکے بغیرہوگیا ہے؟اورکیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہےکہ زمین،سورج،ہوا،پانی،حرارت،برودت،اورزمین کی مخلوقات کاخالق اوررب ایک ہی ہے؟ |
1 | یعنی اس کی گرج اورچمک سے اُمید بھی بندھتی ہےکہ بارش ہوگی اورفصلیں تیار ہوں گی،مگرساتھ ہی خوف بھی لاحق ہوتاہےکہ کہیں بجلی نہ گرپڑے یاایسی طوفانی بارش نہ ہوجائےجوسب کچھ بہالےجائے۔ |
Surah 30 : Ayat 25
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦٓ أَن تَقُومَ ٱلسَّمَآءُ وَٱلْأَرْضُ بِأَمْرِهِۦۚ ثُمَّ إِذَا دَعَاكُمْ دَعْوَةً مِّنَ ٱلْأَرْضِ إِذَآ أَنتُمْ تَخْرُجُونَ
اور اُس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں1 پھر جونہی کہ اُس نے تمہیں زمین سے پکارا، بس ایک ہی پکار میں اچانک تم نکل آؤ گے2
2 | یعنی کائنات کےخالق ومدبرکےلیے تمہیں دوبارہ زندہ کرکے اٹھاناکوئی ایسا بڑاکام نہیں ہے کہ اُسےاِس کےلیے بہت بڑی تیاریاں کرنی ہوں گی،بلکہ اس کی صرف ایک پکاراِس کےلیے بالکل کافی ہوگی کہ آغازِآفرینش سےآج تک جتنےانسان دنیامیں پیداہوئےہیں اورآئندہ پیدا ہوں گےوہ سب ایک ساتھ زمین کے ہرگوشے سےنِکل کھڑے ہوں۔ |
1 | یعنی صرف یہی نہیں کہ وہ اُس کےحکم سے ایک دفعہ وجود میں آگئےہیں،بلکہ ان کامسلسل قائم رہنا اوران کےاندرایک عظیم الشان کارگاہِ ہستی کاپہیم چلتےرہنابھی اسی کےحکم کی بدولت ہے۔ایک لمحہ کےلیےبھی اگراس کاحکم انہیں برقرار نہ رکھے تویہ سارانظام یک لخت درہم برہم ہوجائے۔ |
Surah 30 : Ayat 26
وَلَهُۥ مَن فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۖ كُلٌّ لَّهُۥ قَـٰنِتُونَ
آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں اُس کے بندے ہیں، سب کے سب اسی کے تابع فرمان ہیں
Surah 30 : Ayat 27
وَهُوَ ٱلَّذِى يَبْدَؤُاْ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ وَهُوَ أَهْوَنُ عَلَيْهِۚ وَلَهُ ٱلْمَثَلُ ٱلْأَعْلَىٰ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ
وہی ہے جو تخلیق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا اور یہ اس کے لیے آسان تر ہے1 آسمانوں اور زمین میں اس کی صفت سب سے برتر ہے اور وہ زبردست اور حکیم ہے
1 | یعنی پہلی مرتبہ پیداکرنااگراُس کے لیے مشکل نہ تھا،توآخرتم نے یہ کیسے سمجھ لیا کہ دوبارہ پیداکرنااس کے لیے مشکل ہوجائے گا؟پہلی مرتبہ کی پیدائش میں تو تم خود جیتےجاگتےموجود ہو۔اس لیے اس کامشکل نہ ہوناتو ظاہرہے۔اب یہ بالکل سیدھی سادھی عقل کی بات ہے کہ ایک دفعہ جس نے کسی چیز کو بنایاہواس کے لیے وہی چیزدوبارہ بنانانسبتًہ زیادہ ہی آسان ہوناچاہیے۔ |
Surah 30 : Ayat 28
ضَرَبَ لَكُم مَّثَلاً مِّنْ أَنفُسِكُمْۖ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُم مِّن شُرَكَآءَ فِى مَا رَزَقْنَـٰكُمْ فَأَنتُمْ فِيهِ سَوَآءٌ تَخَافُونَهُمْ كَخِيفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْۚ كَذَٲلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْأَيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ
وہ تمہیں1 خود تمہاری اپنی ہی ذات سے ایک مثال دیتا ہے کیا تمہارے اُن غلاموں میں سے جو تمہاری ملکیت میں ہیں کچھ غلام ایسے بھی ہیں جو ہمارے دیے ہوئے مال و دولت میں تمہارے ساتھ برابر کے شریک ہوں اور تم اُن سے اُس طرح ڈرتے ہو جس طرح آپس میں اپنے ہمسروں سے ڈرتے ہو2؟ اس طرح ہم آیات کھول کر پیش کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں
2 | مشرکین یہ تسلیم کرنے کے بعد کہ زمین وآسمان اوراس کی سب چیزوں کاخالق ومالک اللہ تعالٰی ہے،اُس کی مخلوقات میں سےبعض کوخدائی صفات واختیارات میں اس کاشریک ٹھیراتے تھے،اوران سے دعائیں مانگتے،ان کےآگےنذریں اورنیاز پیش کرتے،اورمراسم عبودیت بجالاتےتھے۔اِن بناوٹی شریکوں کے بارے میں اُن کااصل عقیدہ اُس تلبِیہ کے الفاظ میں ہم کوملتاہے جوخانہ کعَبہ کاطواف کرتے وقت وہ زبان سے اداکرتے تھے۔وہ اس موقع پرکہتےتھے: لبّیک اللّہم لبّیک لاَ شریک لک الاّ شریکا ھولک تملکہ وماملک (طَبَرانی عن ابن عباس)۔’’میں حاضر ہوں،میرے اللہ میں حاضرہوں،تیراکوئی شریک نہیں سوائے اُس شریک کے جوتیرااپناہے،تواُس کا بھی مالک ہے اورجوکچھ اُس کی ملکیت ہے اس کابھی تومالک ہے‘‘۔اللہ تعالٰی اس آیت میں اِسی شرک کی تردید فرمارہاہے۔تمثیل کامنشا یہ ہے کہ خداکےدیے ہوئے مال میں خداہی کے پیداکیے ہوئےوہ انسان جو اتفاقًا تمہاری غلامی میں آگئے ہیں تمہارے توشریک نہیں قرار پاسکتے،مگرتم نے یہ عجیب دھاندلی مچارکھی ہےکہ خداکی پیداکی ہوئی کائنات میں خدا کی پیداکردہ مخلوق کوبے تکلف اُس کے ساتھ خدائی کا شریک ٹھیراتے ہو۔اس طرح کی احمقانہ باتیں سوچتے ہوئے آخر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے۔(مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہوتفہیم القرآن جلد دوم۔النحل،حاشیہ ۶۲)۔ |
1 | یہاں تک توحید اورآخرت کابیان مِلا جُلا چل رہاتھا۔اس میں جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہےان کےاندرتوحیدکےدلائل بھی ہیں اوروہی دلائل یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ آخرت کاآناغیرممکن نہیں ہے۔اس کے بعد آگے خالص توحید پرکلام شروع ہورہاہے۔ |
Surah 30 : Ayat 29
بَلِ ٱتَّبَعَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ أَهْوَآءَهُم بِغَيْرِ عِلْمٍۖ فَمَن يَهْدِى مَنْ أَضَلَّ ٱللَّهُۖ وَمَا لَهُم مِّن نَّـٰصِرِينَ
مگر یہ ظالم بے سمجھے بوجھے اپنے تخیلات کے پیچھے چل پڑے ہیں اب کون اُس شخص کو راستہ دکھا سکتا ہے جسے اللہ نے بھٹکا دیا ہو1 ایسے لوگوں کا تو کوئی مدد گار نہیں ہو سکتا
1 | یعنی جب کوئی شخص سیدھی سیدھی عقل کی بات نہ خود سوچے اورنہ کسی کے سمجھانے سےسمجھنے کےلیےتیارہو توپھراس کی عقل پراللہ کی پھٹکار پڑجاتی ہے اوراس کے بعدہروہ چیزجوکسی معقول آدمی کو حق بات تک پہنچنے میں مدد دےسکتی ہے،وہ اس ضدی جہالت پسند انسان کوالٹی مزید گمراہی میں مبتلاکرتی چلی جاتی ہے۔یہی کیفیت ہےجسے’’بھٹکانے‘‘کے لفظ سے تعبیرکیاگیاہے۔ راستی پسند انسان جب اللہ سے ہدایت کی توفیق طلب کرتا ہےتو اللہ اس کی طلبِ صادق کےمطابق اس کےلیے زیادہ سے زیادہ اسبابِ ہدایت پیدافرمادیتاہے۔اورگمراہی پسندانسان جب گمراہ ہی ہونے پراصرارکرتا ہےتوپھراللہ اس کےلیے وہی اسباب پیداکرتاچلا جاتا ہےجواسے بھٹکاکرروز بروزحق سےدورلیے چلےجاتےہیں۔ |
Surah 30 : Ayat 30
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًاۚ فِطْرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَاۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ ٱللَّهِۚ ذَٲلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس1 (اے نبیؐ، اور نبیؐ کے پیروؤں) یک سُو ہو کر اپنا رُخ اِس دین2 کی سمت میں جما دو3، قائم ہو جاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے4، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی5، یہی بالکل راست اور درست دین ہے6، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
6 | یعنی فطرتِ سلیمہ پرقائم رہنا ہی سیدھااورصحیح طریقہ ہے۔ |
5 | یعنی خدانے انسان کو اپنابندہ بنایاہےاوراپنی ہی بندگی کے لیے پیداکیا ہے۔یہ ساخت کسی کے بدلے نہیں بدل سکتی۔نہ آدمی بندہ سے غیر بندہ بن سکتاہے،نہ کسی غیرخداکوخدابنالینے سےوہ حقیقت میں اس کا خدا بن سکتاہے۔انسان خواہ اپنے کتنے ہی معبود بنابیٹھے،لیکن یہ امرِواقعہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ وہ ایک خداکےسوا کسی کابندہ نہیں ہے۔انسان اپنی حماقت اورجہالت کی بنا پرجس کو چاہے خدائی صفات واختیارات کاحامل قراردے لےاورجسےبھی چاہے اپنی قسمت کابنانے اوربگاڑنے والاسمجھ بیٹھے،مگرحقیقتِ نفس الامری یہی ہے کہ نہ الوہیت کی صفات اللہ تعالٰی کے سواکسی کوحاصل ہیں نہ اس کے اختیارات،اورنہ کسی دوسرے کےپاس یہ طاقت ہےکہ انسان کی قسمت بناسکےیابگاڑسکے۔ایک دوسراترجمہ اس آیت کایہ بھی ہوسکتاہے کہ’’اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی نہ کی جائے‘‘۔یعنی اللہ نے جس فطرت پرانسان کوپیداکیاہے اس کو بگاڑنااورمسخ کرنادرست نہیں ہے۔ |
4 | یعنی تمام انسان اِس فطرت پرپیداکیے گئے ہیں کہ ان کاکوئی خالق اورکوئی رب اورکوئی معبود اورمُطاعِ حقیقی ایک اللہ کے سوانہیں ہے۔اسی فطرت پرتم کوقائم ہوجاناچاہیے۔اگرخود مختاری کارویہ اختیارکروگےتب بھی فطرت کے خلاف چلوگےاوراگربندگئ غیر کاطوق اپنے گلےمیں ڈالوگےتب بھی اپنی فطرت کےخلاف کام کروگے۔اس مضمون کو متعدداحادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایاہے۔بخاری ومسلم میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا مامن مولود یولدالا علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ اوینصرانہ اویمجانہ کماتنتج البھیمتہ بھیمتتہ جمعاء ھل تحسون فیھامن جدعاء۔یعنی ہربچہ جوکسی ماں کے پیٹ سےپیداہوتاہے،اصل انسانی فطرت پرپیداہوتاہے۔یہ ماں باپ ہیں جواسےبعد میں عیسائی یا یہودی یامجوسی وغیرہ بناڈالتےہیں۔اس کی مثال ایسی ہےجیسےہرجانورکے پیٹ سےپوراکا پورا صحیح وسالم جانوربرآمد ہوتاہے،کوئی بچہ بھی کٹے ہوئے کان لے کرنہیں آتا، بعد میں مشرکین اپنے اوہام جاہلیت کی بناپراس کے کان کاٹتے ہیں۔مُسنداحمد اورنسائی میں ایک اورحدیث ہےکہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمنوں کے بچوں تک کو قتل کردیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبرہوئی توسخت ناراض ہوئے اورفرمایا مابال اقوام جاوزھم القتل الیوم حتٰی قتلواالذُّریّتہ،’’لوگوں کوکیا ہوگیا کہ آج وہ حد سےگزرگئےاوربچوں تک کو قتل کرڈالا‘‘۔ایک شخص نے عرض کیا کیا یہ مشرکین کےبچے نہ تھے؟فرمایا انما خیارکم ابناءالمشرکین،’’تمہارے بہترین لوگ مشرکین ہی کی تواولاد ہیں‘‘۔پھرفرمایا کل نسمتہ تولد علی الفطرۃ حتی یعرب عنہ لسانھا فابواھا یھودانھااو ینصرانھا،’’ہر متنفس فطرت پرپیداہوتاہے،یہاں تک کہ جب اس کی زبان کھلنے پرآتی ہے توماں باپ اسےیہودی یانصرانی بنالیتے ہیں‘‘۔ایک اور حدیث جوامام احمدؓ نےعیاض بن حمارالجُاشِعِی سے نقل کی ہےاس میں بیان ہوا ہے کہ ایک روزنبی ﷺنےاپنے خطبہ کے دوران میں فرمایا ان ربی یقول انی خلقت عبادی حنفاء کلہم وانھم اتتھم الشیاطین فاضلتہم عن دینہم وحَرَّمَت علیہم مااحللتُ لھم واَمَرَتھم ان یشرکوابی مالم انزل بہِ سُلطَانًا۔’’میرارب فرماتاہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیداکیاتھا،پھرشیاطین نے آکرانہیں ان کے دین سےگمراہ کیا،اورجوکچھ میں نے ان کے لیےحلال کیاتھااسے حرام کیا،اورانہیں حکم دیاکہ میرے ساتھ اُن چیزوں کو شریک ٹھہرائیں جن کے شریک ہونے پرمیں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے‘‘۔ |
3 | ’’یک سو ہوکراپنارُخ اِس طرف جمادو‘‘یعنی پھرکسی اورطرف کارُخ نہ کرو۔زندگی کےلیے اِس راہ کو اختیارکرلینے کےبعدپھرکسی دوسرے راستےکی طرف التفات تک نہ ہونے پائے۔پھرتمہاری فکراورسوچ ہوتو مسلمان کی سی اورتمہاری پسنداور ناپسند ہوتومسلمان کی سی۔تمہاری قدریں اورتمہارے معیارہوں تووہ جواسلام تمہیں دیتا ہے،تمہارے اخلاق اورتمہاری سیرت وکردار کاٹھپّہ ہوتواُس طرح کاجواسلام چاہتاہے،اورتمہاری انفرادی و اجتماعی زندگی کےمعاملات چلیں تواُس طریقے پرجواسلام نے تمہیں بتایاہے۔ |
2 | اِس دین سے مراد وہ خاص دین ہے جسے قرآن پیش کررہا ہے،جس میں بندگی،عبادت،اورطاعت کامستحق اللہ وحدہ لاشریک کےسوااورکوئی نہیں ہے،جس میں الُوہیّت اوراس کی صفات واختیارات اوراس کے حقوق میں قطعًا کسی کوبھی اللہ تعالٰی کےساتھ شریک نہیں ٹہرایا جاتا،جس میں انسان اپنی رضاورغبت سے اس بات کی پابندی اختیارکرتاہےکہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ کی ہدایت اوراس کے قانون کی پیروی میں بسرکرے گا۔ |
1 | یہ ’’پس‘‘اس معنی میں ہے کہ جب حقیقت تم پرکھل چکی،اورتم کومعلوم ہوگیاکہ اس کائنات کااور خود انسان کاخالق ومالک اورحاکم ذی اختیارایک اللہ کے سوااورکوئی نہیں ہے تواس کے بعد لامحالہ تمہاراطرزِعمل یہ ہوناچاہیے۔ |