Surah 30 : Ayat 11
ٱللَّهُ يَبْدَؤُاْ ٱلْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُۥ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
اللہ ہی خلق کی ابتدا کرتا ہے، پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا1، پھر اسی کی طرف تم پلٹائے جاؤ گے
1 | یہ بات اگرچہ دعوے کے انداز میں بیان فرمائی گئی ہے مگراس میں خود دلیلِ دعوٰی بھی موجود ہے۔صریح عقل اس بات پرشہادت دیتی ہے کہ جس کے لیے خلق کی ابتدا کرنا ممکن ہواس کے لیے اسی خلق کا اعادہ کرنا بدرجہ اولٰی ممکن ہے۔خلق کی ابتدا تو ایک امرواقعہ ہے جو سب کے سامنے موجود ہے۔اور کفارومشرکین بھی مانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالٰی ہی کا فعل ہے۔اس کے بعد ان کا یہ خیال کرنا سراسر نامعقول بات ہے کہ وہی خدا جس نے اس خلق کی ابتدا کی ہے،اس کا اعادہ نہیں کرسکتا۔ |
Surah 30 : Ayat 12
وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ يُبْلِسُ ٱلْمُجْرِمُونَ
اور جب وہ ساعت1 برپا ہو گی اس دن مجرم ہَک دَک رہ جائیں گے2
2 | اصل میں لفظ ابلاص استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں سخت مایوسی اور صدمے کی بناپرکسی شخص کا گُم سُم ہوجانا،اُمید کے سارے راستے بند پاکرحیران و ششدررہ جانا،کوئی حجت نہ پاکردم بخود رہ جانا۔یہ لفظ جب مجرم کے لیے استعمال کیا جائے توذہن کے سامنے اس کی یہ تصویرآتی ہے کہ ایک شخص عین حالتِ جُرم میں بھرے ہاتھوں(Red-handed) پکڑا گیاہے،نہ فرار کی کوئی راہ پاتا ہے،نہ اپنی صفائی میں کوئی چیز پیش کرکے بچ نکلنے کو توقع رکھتا ہے،اس لیے زبان اس کی بند ہے اور وہ انتہائی مایوسی و دل شکستگی کی حالت میں حیران وپریشان کھڑا ہے۔اس مقام پریہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں مجرمین سے مراد صرف وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نے دنیا میں قتل،چوری،ڈاکےاوراسی طرح کے دوسرے جرائم کیے ہیں،بلکہ وہ سب لوگ مراد ہیں جنہوں نے خدا سے بغاوت کی ہے، اس کے رسولوں کی تعلیم و ہدایت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے،آخرت کی جواب دہی کے منکریااس سےبے فکررہے ہیں،اور دنیا میں خداکےبجائے دوسروں کی یا اپنے نفس کی بندگی کرتےرہے ہیں،خواہ اس بنیادی گمراہی کے ساتھ انہوں نے وہ افعال کیے ہوں یا نہ کیے ہوں جنہیں عرف عام میں جرائم کہا جاتاہے۔مزید برآں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہوں نے خدا کو مان کر،اس کے رسولوں پرایمان لاکر،آخرت کااقرار کرکےپھردانستہ اپنے رب کی نافرمانیاں کی ہیں اورآخروقت تک اپنی اس باغیانہ روش پرڈٹے رہے ہیں۔یہ لوگ جب اپنی توقعات کے بالکل خلاف عالمِ آخرت میں یکایک جی اٹھیں گےاوردیکھیں گے کہ یہاں تو واقعی وہ دوسری زندگی پیش آگئی ہے جس کاانکار کرکے،یا جسے نظرانداز کرکےوہ دنیا میں کام کرتے رہےتھے،تو ان کے حواس باختہ ہو جائیں گےاوروہ کیفیت ان پرطاری ہوگی جس کا نقشہ یُبلِسُ المُجرِمُونَ کےالفاظ میں کھینچا گیا ہے۔ |
1 | یعنی اللہ تعالٰی کی طرف پلٹنے اوراس کے حضور پیش ہونے کی ساعت۔ |
Surah 30 : Ayat 13
وَلَمْ يَكُن لَّهُم مِّن شُرَكَآئِهِمْ شُفَعَـٰٓؤُاْ وَكَانُواْ بِشُرَكَآئِهِمْ كَـٰفِرِينَ
ان کے ٹھیرائے ہوئے شریکوں میں کوئی ان کا سفارشی نہ ہو گا1 اور وہ اپنے شریکوں کے منکر ہو جائیں گے2
2 | یعنی اُس وقت یہ مشرکین خود اس بات کااقرار کریں گے کہ ہم ان کو خدا کاشریک ٹھیرانے میں غلطی پر تھے۔ان پریہ حقیقت کھل جائے گی کہ فی الواقع ان میں سے کسی کا بھی خدائی میں کوئی حصّہ نہیں ہے،اس لیے جس شرک پرآج وہ دنیا میں اصرار کررہے ہیں،اسی کا وہ آخرت میں انکارکریں گے۔ |
1 | شُرکاء کا اطلاق تین قسم کی ہستیوں پرہوتاہے۔ایک ملائکہ،انبیاء،اولیاء اور شہداء وصالحین جن کو مختلف زمانوں میں مشرکین نے خدائی صفات واختیارات کاحامل قرار دے کران کے آگے مراسِم عبودیت انجام دیےہیں۔وہ قیامت کے روز صاف کہہ دیں گے کہ تم یہ سب کچھ ہماری مرضی کے بغیر،بلکہ ہماری تعلیم و ہدایت کے سراسر خلاف کرتے رہے ہو،اس لیے ہماراتم سے کوئی واسطہ نہیں،ہم سے کوئی اُمید نہ رکھو کہ ہم تمہاری شفاعت کے لیے خدائے بزرگ کے سامنے کچھ عرض معروض کریں گے۔دوسری قسم اُن اشیاء کی ہے جوبے شعور یا بےجان ہیں،جیسے چاند،سورج،سیارے،درخت،پتھراور حیوانات وغیرہ۔مشرکین نےان کو خدابنایا اوران کی پرستش کی اوران سے دعائیں مانگیں،مگروہ بے چارے بے خبرہیں کہ اللہ میاں کے خلیفہ صاحب یہ ساری نیازمندیاں ان کےلیے وقف فرمارہےہیں۔ظاہر ہے کہ ان میں سے بھی کوئی وہاں ان کی شفاعت کے لیے آگے بڑھنے والا نہ ہوگا۔تیسری قسم اُن اکابرمجرمین کی ہے جنہوں نے خودکوشش کرکے،مکرو فریب سے کام لے کر،جھوٹ کے جال پھیلا کر،یا طاقت استعمال کرکے دنیا میں خداکے بندوں سے اپنی بندگی کرائی،مثلاً شیطان،جھوٹے مذہبی پیشوا،اورظالم وجابر حکمراں وغیرہ۔یہ وہاں خود گرفتارِبلاہوں گے،اپنے ان بندوں کی سفارش کے لیے آگے بڑھناتو درکنار،اُن کی تو اُلٹی کوشش یہ ہوگی کہ اپنے نامہ اعمال کا بوجھ ہلکا کریں اور دادرِمحشر کے حضور یہ ثابت کردیں کہ یہ لوگ اپنے جرائم کے خود ذمہ دار ہیں،ان کی گمراہی کا وبال ہم پرنہیں پڑنا چاہیے۔اس طرح مشرکین کو وہاں کسی طرف سے بھی کوئی شفاعت بہم نہ پہنچے گی۔ |
Surah 30 : Ayat 14
وَيَوْمَ تَقُومُ ٱلسَّاعَةُ يَوْمَئِذٍ يَتَفَرَّقُونَ
جس روز وہ ساعت برپا ہو گی، اس دن (سب انسان) الگ گروہوں میں بٹ جائیں گے1
1 | یعنی دنیا کی وہ تمام جتھ بندیاں جو آج قوم،نسل،وطن،زبان،قبیلہ وبرادری،اور معاشی و سیاسی مفادات کی بنیاد پربنی ہوئی ہیں،اُس روز ٹوٹ جائیں گی،اورخالص عقیدے اوراخلاق وکردار کی بنیاد پرنئےسرے سے ایک دوسری گروہ بندی ہو گی۔ایک طرف نوع انسانی کی تمام اگلی پچھلی قوموں میں سے مومن و صالح انسان الگ چھانٹ لیے جائیں گے اور اب سب کا ایک گروہ ہوگا۔دوسری طرف ایک ایک قسم کے گمراہانہ نظریات و عقائد رکھنے والے،اور ایک ایک قسم کے جرائم پیشہ لوگ اس عظیم الشان انسانی بھیڑ میں سے چھانٹ چھانٹ کرالگ نکال لیے جائیں گےاور ان کے الگ الگ گروہ بن جائیں گے۔دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ اسلام جس چیزکواِس دنیا میں تفریق اور اجتماع کی حقیقی بنیاد قرار دیتا ہےاور جسے جاہلیت کے پرستار یہاں ماننےسے انکارکرتے ہیں،آخرت میں اسی بنیاد پرتفریق بھی ہوگی اوراجتماع بھی۔اسلام کہتا ہے کہ انسانوں کو کاٹنے اور جوڑنے والی اصل چیز عقیدہ اوراخلاق ہے۔ایمان لانے والے اور خدائی ہدایت پرنظام زندگی کی بنیاد رکھنے والے ایک امت ہیں،خواہ وہ دنیا کے کسی گوشے سے تعلق رکھتے ہوں،اور کفروفسق کی راہ اختیار کرنے والے ایک دوسری امت ہیں،خواہ ان کا تعلق کسی نسل و وطن سے ہو۔ان دونوں کی قومیت ایک نہیں ہوسکتی۔یہ نہ دنیا میں ایک مشترک راہِ زندگی بنا کرایک ساتھ چل سکتے ہیں اورنہ آخرت میں ان کاانجام ایک ہوسکتا ہے۔دنیا سے آخرت تک ان کی راہ اور منزل ایک دوسرے سے الگ ہے۔جاہلیت کے پرستاراس کے برعکس ہرزمانے میں اصرارکرتے رہے ہیں اورآج بھی اسی بات پرمصرہیں کہ جتھ بندی نسل اور وطن اورزبان کی بنیادوں پرہونی چاہیے،ان بنیادوں کے لحاظ سے جو لوگ مشترک ہوں انہیں بلا لحاظِ مذہب و عقیدہ ایک قوم بن کردوسری ایسی ہی قوموں کے مقابلے میں متحدہونا چاہیے،اور اس قومیت کا ایک ایسا نظامِ زندگی ہونا چاہیے جس میں توحید اورشرک اوردہریت کے معتقدین سب ایک ساتھ مل کرچل سکیں۔یہی تخیل ابو جہل اورابو لہب اورسردارانِ قریش کا تھا،جب وہ بار بار محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرالزام رکھتے تھے کہ اِس شخص نے آکرہماری قوم میں تفرقہ ڈال دیاہے۔اسی پرقرآن مجید یہاں متنبہ کررہا ہےکہ تمہاری یہ تمام جتھ بندیاں جو تم نے اس دنیا میں غلط بنیادوں پرکررکھی ہیں آخرکارٹوٹ جانے والی ہیں،اور نوع انسانی میں مستقل تفریق اُسی عقیدے اور نظریہ حیات اوراخلاق و کردار کی بنیاد پرہونے والی ہے جس پراسلام دنیا کی زندگی میں کرنا چاہتاہے۔جن لوگوں کی منزل ایک نہیں ہے ان کی راہ زندگی آخر کیسے ایک ہوسکتی ہے۔ |
Surah 30 : Ayat 15
فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ فَهُمْ فِى رَوْضَةٍ يُحْبَرُونَ
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایک باغ میں1 شاداں و فرحاں رکھے جائیں گے2
2 | اصل میں لفظ یُحبَرُونَ استعمال ہوا ہےجس کے مفہوم میں مسّرت،لذت،شان وشوکت اور تکریم کے تصّورات شامل ہیں۔یعنی وہاں بڑی عزّت کے ساتھ رکھے جائیں گے،خوش وخُرم رہیں گے اور ہرطرح کی لذتوں سے شاد کام ہوں گے۔ |
1 | ’’ایک باغ‘‘کا لفظ یہاں اُس باغ کی عظمت وشان کا تصّوردلانے کےلیےاستعمال ہوا ہے۔عربی زبان کی طرح اردو میں بھی یہ اندازِبیان اس غرض کے لیے معروف ہے۔جیسے کوئی شخص کسی کو ایک بڑااہم کام کرنے کو کہے اوراس کے ساتھ یہ کہے کہ تم نے یہ کام اگرکردیا تو میں تمیں’’ایک چیز‘‘دوں گا،تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ وہ چیز عدد کے لحاظ سے ایک ہو گی،بلکہ اس سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ اس کے انعام میں تم کو ایک بڑی قیمتی چیز دوں گاجسےپاکرتم نہال ہوجاؤگے۔ |
Surah 30 : Ayat 16
وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا وَلِقَآىِٕ ٱلْأَخِرَةِ فَأُوْلَـٰٓئِكَ فِى ٱلْعَذَابِ مُحْضَرُونَ
اور جنہوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو اور آخرت کی ملاقات کو جھٹلایا ہے1 وہ عذاب میں حاضر رکھے جائیں گے
1 | یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ایمان کے ساتھ تو عملِ صالح کا ذکرکیا گیاہےجس کے نتیجے میں وہ شاندارانجام نصیب ہوگا،لیکن کفر کاانجامِ بدبیان کرتے ہوئے عملِ بد کاکوئی ذکر نہیں فرمایا گیا۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ کفر بجائے خود آدمی کے انجام کو خراب کردینے کےلیے کافی ہے خواہ عمل کی خرابی اس کے ساتھ شامل ہویا نہ ہو۔ |
Surah 30 : Ayat 17
فَسُبْحَـٰنَ ٱللَّهِ حِينَ تُمْسُونَ وَحِينَ تُصْبِحُونَ
پس1 تسبیح کرو اللہ کی2 جبکہ تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو
2 | اللہ کی تسبیح کرنے سے مراد اُن تمام عیوب اورنقائص اورکمزوریوں سے،جو مشرکین اپنے شرک اورانکارِآخرت سے اللہ کی طرف منسُوب کرتے ہیں،اُس ذاتِ بےہمتا کے پاک اورمنزہ ہونے کااعلان واظہارکرنا ہے۔اِس اعلان واظہار کی بہترین صورت نماز ہے۔اِسی بنا پرابن عباس،مجاہد،قتادہ،ابن زید اوردوسرے مفسّرین کہتے ہیں کہ یہاں تسبیح کرنے سے مراد نماز پڑھناہے۔اس تفسیر کے حق میں یہ صریح قرینہ خود اس آیت میں موجود ہے کہ اللہ کی پاکی بیان کرنے کے لیے اِس میں چندخاص اوقات مقرر کیے گیےہیں۔ظاہربات ہے کہ اگرمحض یہ عقیدہ رکھنا مقصود ہو کہ اللہ تمام عیوب و نقائص سے منزّہ ہے،تواس کے لیے صبح و شام اور ظہروعصرکے اوقات کی پابندی کاکوئی سوال پیدا نہیں ہوتا،کیونکہ یہ عقیدہ تو مسلمان کو ہروقت رکھنا چاہیے۔اسی طرح اگرمحض زبان سے اللہ کی پاکی کااظہارمقصود ہو،تب بھی اِن اوقات کی تخصیص کےکوئی معنی نہیں،کیونکہ یہ اظہارتومسلمان کوہرموقع پرکرنا چاہیے۔اس لیے اوقات کی پابندی کے ساتھ تسبیح کرنے کاحکم لامحالہ اُس کی ایک خاص عملی صورت ہی کی طرف اشارہ کرتاہے۔اوریہ عملی صورت نماز کے سوااورکوئی نہیں ہے۔ |
1 | یہ’’پس‘‘اس معنی میں ہے کہ جب تمہیں یہ معلوم ہوگیا کہ ایمان و عمل صالح کا انجام وہ کچھ،اور کفروتکذیب کا انجام یہ کچھ ہے تو تمہیں یہ طرزِعمل اختیارکرناچاہیے۔نیزیہ’’پس‘‘اس معنی میں بھی ہے کہ مشرکین وکفار حیاتِ اُخروی کوناممکن قراردے کراللہ تعالٰی کو دراصل عاجزودرماندہ قراردے رہے ہیں۔لہٰذا تم اس کے مقابلہ میں اللہ کی تسبیح کرو اوراس کمزوری سے اُس کے پاک ہونے کااعلان کرو۔اس ارشاد کے مخاطب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے واسطے سے تمام اہلِ ایمان ہیں۔ |
Surah 30 : Ayat 18
وَلَهُ ٱلْحَمْدُ فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِ وَعَشِيًّا وَحِينَ تُظْهِرُونَ
آسمانوں اور زمین میں اُسی کے لیے حمد ہے اور (تسبیح کرو اس کی) تیسرے پہر اور جبکہ تم پر ظہر کا وقت آتا ہے1
1 | اس آیت میں نماز کے چاراوقات کی طرف صاف اشارہ ہے: فجر،مغرب،عصراورظہر۔اس کے علاوہ مزید اشارات جو قرآن مجید میں اوقات نماز کی طرف کیے گئے ہیں،حسبِ ذیل ہیں: اَقِمِہ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوقِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرانَ الفَجرِ(بنی اسرائیل،آیت ۷۸) نماز قائم کرو آفتاب ڈھلنے کے بعد سے رات کی تاریکی تک،اور فجرکے وقت قرآن پڑھنے کااہتمام کرو۔وَاَقِمہِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِوَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ۔(ہود۔آیت ۱۱۴) اور نماز قائم کرو دن کے دونوں سروں پراورکچھ رات گزرنے پر۔وَسَبِح بِحَمدِ رَبِقَ قَبلَ طُلُوعِ الشَّمسِ وَقَبلَ غُرُوبِھَاوَمِن ٰانَای الَّیلِ فَسَّبِح وَاَطرَافَ النَھَارِ۔(ٰطٰہ۔آیت۔۱۳) اوراپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کروسورج نکنے سےپہلےاوراس کے غروب ہونے سے پہلے،اوررات کی کچھ گھڑیوں میں پھرتسبیح کرو،اوردن کے کناروںپر۔ان میں سے پہلی آیت بتاتی ہے کہ نماز کے اوقات زوالِ آفتاب کے بعد سے عشاتک ہیں،اور اس کےبعد پھرفجرکا وقت ہے۔دوسری آیت میں دن کے دونوں سروں سے مراد صبح اور مغرب کے اوقات ہیں اور کچھ رات گزرنے پرسےمراد عشا کاوقت۔تیسری آیت میں قبلِ طلوعِ آفتاب سے مراد فجراورقبلِ غروب سے مراد عصر۔رات کی گھڑیوں میں مغرب اور عشاءدونوں شامل ہیں۔اوردن کے کنارے سے تین ہیں،ایکؔ صب،دوسرؔے زوالِ آفتاب،تیسرؔے مغرب۔اس طرح قرآن مجید مختلف مقامات پرنماز کےاُن پانچوں اوقات کی طرف اشارہ کرتاہے جن پرآج دنیا بھرکے مسلمان نماز پڑھتےہیں۔لیکن ظاہرہےکہ محض ان آیات کوپڑھ کرکوئی شخص بھی اوقات نماز متعین نہ کرسکتا تھاجب تک کہ اللہ کے مقررکیے ہوئے معلمِ قرآن،محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنے قول اورعمل سے ان کی طرف رہنمائی نہ فرماتے۔یہاں ذراتھوڑی دیرٹھیرکرمنکرینِ حدیث کی اِس جسارت پرغورکیجیے کہ وہ’’نمازپڑھنے‘‘ کامذاق اڑاتے ہیں اورکہتے ہیں کہ یہ نماز جو آج مسلمان پڑھ رہے ہیں یہ سرے سے وہ چیز ہی نہیں ہے جس کاقرآن میں حکم دیا گیا ہے۔اُن کااشارہ ہے کہ قرآن تواقامتِ صلٰوۃ کوحکم دیتا ہے،اوراس سے مراد نماز پڑھنا نہیں بلکہ’’نظامِ ربوبیت‘‘قائم کرنا ہے۔اب ذراان سے پوچھیے کہ وہ کونسا نرالہ نظامِ ربوبیت ہے جسے یاتو طلوعِ آفتاب سے پہلے قائم کیا جاسکتاہے یا پھرزوالِ آفتاب کے بعد سے کچھ رات گزرنے تک؟اور وہ کونسا نظامِ ربوبیت ہےجو خاص جمعہ کے دن قائم کیا جانامطلوب ہے؟(اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعتہ فاسعواالی ذکراللہ)۔اور نظام ربوبیت کی آخر وہ کونسی خاص قسم ہے کہ اسے قائم کرنے کے لیےجب آدمی کھڑا ہوتوپہلے منہ اورکہنیوں تک ہاتھ اور ٹخنوں تک پاؤں دھو لےاورسرپرمسح کرلےورنہ دہ اسے قائم نہیں کرسکتا؟(اِذَاقُمتُم اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغسِلُواوُجُوھَکُمہ وَاَیدِیَکُمہ اِلیَ المَرَافِقِ)۔اور نظامِ ربوبیت کے اندرآخریہ کیا خصوصیت ہے کہ اگرآدمی حالتِ جَنابت میں ہوتو جب تک وہ غسل نہ کرلےاسےقائم نہیں کرسکتا؟(لَا تَقرَبُواالصَّلٰوۃَ وَلَا جُنُبًااِلَّا عَابِرِی سَبِیلٍ حَتّٰی تَغتَسِلُوا)اور یہ کیا معاملہ ہے کہ اگرآدمی عورت کو چھوبیٹھاہواورپانی نہ ملے تواس عجیب وغریب نظامِ ربوبیت کو قائم کرنے کے لیے اسےپاک مٹی پرہاتھ مارکراپنے چہرےاورمنہ پرملنا ہوگا؟(اَولٰمَستُمُ النّسَاءَ فَلَم تَجِدُوامَاءً فَتَیَمَّمُواصَعِیدًا طَیبًا فَامسَحُوابِوُجُوھِکُم وَاَیدِیَکُم مِّنہُ)۔اور یہ کیسا عجیب نظامِ ربوبیت ہے کہ اگر سفرپیش آجائے توآدمی اسے پوراقائم کرنے کے بجائے آدھا ہی قائم کرلے؟(وَاِذَا ضَرَبتُم فِی الاَرضِ فَلَیسَ عَلَیکُم جُنَاحٌ اَن تَقصُروامِنَ الصَّلٰوۃِ)۔پھریہ کیالطیفہ ہے کہ اگرجبگ کی حالت ہوتوفوج کےآدھے سپاہی ہتھیارلیے ہوئے امام کے پیچھے’’نظامِ ربوبیت‘‘قائم کرتے رہیں اورآدھے دشمن کے مقابلے میں ڈٹے رہیں،اس کے بعد جب پہلاگروہ امام کے پیچھے’’نظامِ ربوبیت قائم‘‘کرتے ہوئے ایک سجدہ کرلے تووہ اُٹھ کردشمن کامقابلہ کرنے کےلیے چلا جائے،اوردوسراگروہ اس کی جگہ آکرامام کے پیچھےاس’’نظامِ ربوبیت‘‘کوقائم کرناشروع کردے(واذا کنت فیھم فاقمت لھم الصلوۃ فلتقم طافتہ منھم معک ولیاخذوا اسلحتہم فاذا سجدوا فلیکونوا من وراکم ولتات طافۃ اخری لم یصلوافلیصلومعک)۔قرآن مجید کی یہ ساری آیات صاف بتارہی ہیں کہ اقامتِ صلٰوۃ سے مراد وہی نمازقائم کرناہے جو مسلمان دنیا بھرمیں پڑھ رہے ہیں،لیکن منکرین حدیث ہیں کہ خود بدلنے کے بجائے قرآن کوبدلنے پراصرار کیے چلے جاتےہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص اللہ تعالٰی کے مقابلے میں بالکل ہی بے باک نہ ہو جائےوہ اس کے کلام کے ساتھ یہ مذاق نہیں کرسکتاجویہ حضرات کررہے ہیں۔یا پھرقرآن کے ساتھ یہ کھیل وہ شخص کھیل سکتا ہے جواپنےدل میں اسے اللہ کلام نہ سمجھتاہواورمحض دھوکادینے کےلیے قرآن قرآن پکارکرمسلمانوں کوگمراہ کرنا چاہتاہو۔(اس سلسلہ میں آگے حاشیہ ۵۰ بھی ملاحظہ ہو)۔ |
Surah 30 : Ayat 19
يُخْرِجُ ٱلْحَىَّ مِنَ ٱلْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ ٱلْمَيِّتَ مِنَ ٱلْحَىِّ وَيُحْىِ ٱلْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاۚ وَكَذَٲلِكَ تُخْرَجُونَ
وہ زندہ میں سے مُردے کو نکالتا ہے اور مُردے میں سے زندہ کو نکالتا ہے اور زمین کو اس کی موت کے بعد زندگی بخشتا ہے1 اسی طرح تم لوگ بھی (حالت موت سے) نکال لیے جاؤ گے
1 | یعنی جو خداہرآن تمہاری آنکھوں کے سامنے یہ کام کررہا ہے وہ آخرانسان کومرنے کے بعد دوبارہ زندگی بخشنے سے عاجزکیسے ہوسکتاہے۔وہ ہروقت زندہ انسانوں اورحیوانات میں سےفضلات(Waste Matter)خارج کررہاہے جن کے اندرزندگی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔وہ ہرلمحہ بے جان مادے(Dead Matter)کے اندرزندگی کی روح پھونک کربےشمارجیتے جاگتےحیوانات،نباتات اورانسان وجود میں لارہاہے،حالاں کہ بجائے خوداُن مادّوں میں،جن سے ان زندہ ہستیوں کے جسم مرکتب ہوتے ہیں،قطعًاکوئی زندگی نہیں ہوتی۔وہ ہرآن یہ منظرتمہیں دکھارہاہےکہ بنجرپڑی ہوئی زمین کو جہاں پانی میسرآیااوریکایک وہ حیوانی اورنباتی زندگی کے خزانے اُگلناشروع کردیتی ہے۔یہ سب کچھ دیکھ کربھی اگرکوئی شخص یہ سمجھتاہے کہ اس کارخانہ ہستی کوچلانے والاخداانسان کے مرجانے کےبعد اسے دوبارہ زندہ کرنے سے عاجز ہےتوحقیقت میں وہ عقل کااندھاہے۔اس کے سرکی آنکھیں جن ظاہری مناظرکودیکھتی ہیں،اس کی عقل کی آنکھیں ان کے اندرنظرآنےوالےروشن حقائق کونہیں دیکھتیں۔ |
Surah 30 : Ayat 20
وَمِنْ ءَايَـٰتِهِۦٓ أَنْ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ إِذَآ أَنتُم بَشَرٌ تَنتَشِرُونَ
اُس1 کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر یکایک تم بشر ہو کہ (زمین میں) پھیلتے چلے جا رہے ہو2
2 | یعنی انسان کامایہ تخلیق اِس کےسواکیاہے کہ چند بے جان مادّے ہیں جو زمین میں پائے جاتےہیں۔مثلًا کچھ کاربن،کچھ کیلسیم،کچھ سوڈیم اورایسےہی چند اورعناصر۔انہی کو ترکیب دے کروہ حیرت انگیزہستی بنا کھڑی کی گئی ہےجس کانام انسان ہےاوراس کے اندراحساسات،جذبات،شعور،تعقُّل اورتخیُل کی وہ عجیب قوتیں پیداکردی گئی ہیں جن میں سے کسی کامنبع بھی اس کے عناصرترکیبی میں تلاش نہیں کیا جاسکتا۔پھریہی نہیں کہ ایک انسان اتفاقًاایسا بن کھڑاہوا ہو،بلکہ اس کے اندروہ عجیب تولیدی قوت بھی پیداکردی گئی جس کی بدولت کروڑوں اوراربوں انسان وہی ساخت اوروہی صلاحتیں لیےہوئےبے شمارموروثی اوربے حدوحساب انفرادی خصوصیات کےحامل نکلتے چلےآرہے ہیں۔کیاتمہاری عقل یہ گواہی دیتی ہے کہ یہ انتہائی حکیمانہ خلقت کسی صانع حکیم کی تخلیق کے بغیرآپ سے آپ ہوگئی ہے؟کیاتم بحالتِ ہوش وحواس یہ کہہ سکتے ہوکہ تخلیق انسان جیساعظیم الشان منصوبہ بنانااوراس کوعمل میں لانااورزمین وآسمان کی بے حدوحساب قوتوں کوانسانی زندگی کے لیےسازگارکردینابہت سےخداؤں کی فکروتدبیرکانتیجہ ہوسکتاہے؟اورکیاتمہارادماغ اپنی صحیح حالت میں ہوتاہےجب تم یہ گمان کرتے ہوکہ جوخداانسان کوخالص عدم سےوجود میں لایاہے وہ اسی انسان کو موت دینے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کرسکتا؟ |
1 | خبرداررہناچاہیے کہ یہاں سے رکوع کےخاتمہ تک اللہ تعالٰی کی جونشانیاں بیان کی جارہی ہیں وہ ایک طرف تواوپرکے سلسلہ کلام کی مناسبت سے حیاتِ اُخروی کے امکان ووقوع پردلالت کرتی ہیں،اوردوسری طرف یہی نشانیاں اس بات پربھی دلالت کرتی ہیں کہ یہ کائنات نہ بےخداہےاورنہ اس کے بہت سےخداہیں،بلکہ صرف ایک خدااس کاتنہاخالق،مدبّر،مالک اورفرمانرواہےجس کےسواانسانوں کوکوئی معبودنہیں ہوناچاہیے۔اس طرح یہ رکوع اپنے مضمون کےلحاظ سے تقریرماسبق اورتقریرمابعد،دونوں کےساتھ مربوط ہے۔ |