Introduction
Surah 30 : Ayat 1
الٓمٓ
ا ل م
Surah 30 : Ayat 2
غُلِبَتِ ٱلرُّومُ
رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے ہیں
Surah 30 : Ayat 3
فِىٓ أَدْنَى ٱلْأَرْضِ وَهُم مِّنۢ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ
اور اپنی اِس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے1
1 | ابن عباسؓ اور دوسرے صحابہ و تابعین کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ روم وایران کی اس لڑائی میں مسلمانوں کی ہمدردیاں روم کے ساتھ اور کفار مکہ کی ہمدردیاں ایران کے ساتھ تھیں۔اس کے کئی وجوہ تھے۔ایک یہ کہ ایرانیوں نے اس لڑائی کو مجوسیت اور مسیحیت کی لڑائی کا رنگ دے دیا تھا اور وہ ملک گیری کے مقصد سے تجاوز کرکے اسے مجوسیت پھیلانے کا ذریعہ بنا رہے تھے۔بیت المقدس کی فتح کے بعد خسروپرویزجو خط قیصرِروم کو لکھا تھااس میں صاف طور پروہ اپنی فتح کو مجوسیت کے برحق ہونے کی دلیل قرار دیتاہےاُصُولی اعتبار سے مجوسیوں کا مذہب مشرکینِ مکہ کے مذہب سے ملتاجلتا تھا،کیونکہ وہ بھی توحید کے منکر تھے،دو خداؤں کو مانتے تھے اور آگ کی پرستش کرتے تھے۔اس لیے مشرکین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں۔ان کے مقابلہ میں مسیحی خواہ کتنے ہی مبتلائے شرک ہو گئے ہوں،مگر وہ خدا کی توحید کو اصلِ دین مانتے تھے،آخرت کے قائل تھے،اور وحی ورسالت کو سر چشمہ ہدایت تسلیم کرتے تھے۔اس بنا پران کادین اپنی اصل کے اعتبار سے مسلمانوں کے دین سے مشابہت رکھتا تھا،اور اسی لیے مسلمان قدرتی طور پران سے ہمدردی رکھتے تھے اوران پرمشرک قوم کا غلبہ انہیں ناگوار تھا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ ایک نبی کی آمد سے پہلے جو لوگ سابق نبی کو مانتے ہوں وہ اُصولاً مسلمان ہی کی تعریف میں آتے ہیں اور جب تک بعد کے آنے والے نبی کی دعوت انہیں نہ پہنچے اور وہ اس کا انکار نہ کردیں،ان کا شمارمسلمانوں ہی میں رہتا ہے (ملاحظہ ہو سورہ قصص،حاشیہ۷۳)۔اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پرصرف پانچ چھ برس ہی گزرے تھے،اور حضورؐ کی دعوت ابھی تک باہر نہیں پہنچی تھی۔اس لیے مسلمان عیسائیوں کا شمار کافروں میں نہیں کرتے تھے۔البتہ یہودی ان کی نگاہ میں کافرتھے،کیونکہ وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نبوت کا انکار کر چکے تھے۔تیسری وجہ یہ تھی کہ آغازِاسلام میں عیسائیوں کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی ہی کا برتاؤ ہُوا تھا جیسا کہ سورہ قصص آیات ۵۲ تا ۵۵،اور سورہ مائدہ آیات ۸۴ تا ۸۵ میں بیان ہُوا ہے۔بلکہ ان میں سے بہت سے لوگ کھلے دل سےدعوت حق کو قبول کررہے تھے۔پھر ہجرتِ حبشہ کے موقع پرجس طرح حبش کے عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں کو پناہ دی اور ان کی واپسی کے لیے کفارِمکہ کے مطالبے کو ٹھکرادیا اس کا بھی یہ تقاضا تھا کہ مسلمان مجوسیوں کے مقابلہ میں عیسائیوں کے خیر خواہ ہوں۔ |
Surah 30 : Ayat 4
فِى بِضْعِ سِنِينَۗ لِلَّهِ ٱلْأَمْرُ مِن قَبْلُ وَمِنۢ بَعْدُۚ وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ ٱلْمُؤْمِنُونَ
اللہ ہی کا اختیار ہے پہلے بھی اور بعد میں بھی1 اور وہ دن وہ ہو گا جبکہ اللہ کی بخشی ہوئی فتح پر مسلمان خوشیاں منائیں گے2
2 | ابن عباسؓ،ابو سعید خُدریؓ،سفیان ثوریؓ،سُدّیؓ وغیرہ حضرات کا بیان ہے کہ ایرانیوں پررومیوں کی فتح اور جنگ بدر میں مشرکین پرمسلمانوں کی فتح کا زمانہ ایک ہی تھا،اس لیے مسلمانوں کو دوہری خوشی حاصل ہوئی۔یہی بات ایران اور روم کی تاریخوں سے بھی ثابت ہے۔ سن ۶۲۴ ہی وہ سال ہے جس میں جنگِ بدرہوئی،اور یہی وہ سال ہے جس میں قیصرِروم نے زرتشت کا مولد تباہ کیااور ایران کے سب سے بڑے آتشکدے کو مسمار کردیا۔ |
1 | یعنی پہلے جب ایرانی غالب آئے تو اس بنا پر نہیں کہ معاذاللہ خداوندِ عالم ان کے مقابلےمیں شکست کھا گیا، اور بعد میں جب رومی فتحیاب ہوں گے تواس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اللہ تعالٰی کو اس کا کھویا ہُوا ملک مِل جائے گا۔فرمانروائی تو ہر حال میں اللہ ہی کی ہے۔پہلے جسے فتح نصیب ہوئی اسے بھی اللہ ہی نے فتح دی،اور بعد میں جو فتح پائے گا وہ بھی اللہ ہی کے حکم سے پائے گا۔اس کی خدائی میں کوئی اپنے زور سے غلبہ حاصل نہیں کرسکتا۔جسے وہ اُٹھاتاہے وہی اُٹھتا ہے اور جسے وہ گراتا ہے وہی گرتا ہے۔ |
Surah 30 : Ayat 5
بِنَصْرِ ٱللَّهِۚ يَنصُرُ مَن يَشَآءُۖ وَهُوَ ٱلْعَزِيزُ ٱلرَّحِيمُ
اللہ نصرت عطا فرماتا ہے جسے چاہتا ہے، اور وہ زبردست اور رحیم ہے
Surah 30 : Ayat 6
وَعْدَ ٱللَّهِۖ لَا يُخْلِفُ ٱللَّهُ وَعْدَهُۥ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
یہ وعدہ اللہ نے کیا ہے، اللہ کبھی اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا، مگر اکثر لوگ نہیں جانتے ہیں
Surah 30 : Ayat 7
يَعْلَمُونَ ظَـٰهِرًا مِّنَ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَهُمْ عَنِ ٱلْأَخِرَةِ هُمْ غَـٰفِلُونَ
لوگ دُنیا کی زندگی کا بس ظاہری پہلو جانتے ہیں اور آخرت سے وہ خود ہی غافل ہیں1
1 | یعنی اگرچہ آخرت پردلالت کرنے والے آثاروشواہد کثرت سے موجود ہیں اور اس سے غفلت کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے،لیکن یہ لوگ اس سے خود ہی غفلت برت رہے ہیں۔دوسرے الفاظ میں،یہ ان کی اپنی کوتاہی ہے کہ دنیوی زندگی کے اس ظاہری پردے پرنگاہ جما کر بیٹھ گئے ہیں اور اس کے پیچھے جو کچھ آنے والا ہے اس سے بالکل بے خبر ہیں،اورنہ خدا کی طرف سے ان کو خبردار کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے۔ |
Surah 30 : Ayat 8
أَوَلَمْ يَتَفَكَّرُواْ فِىٓ أَنفُسِهِمۗ مَّا خَلَقَ ٱللَّهُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَآ إِلَّا بِٱلْحَقِّ وَأَجَلٍ مُّسَمًّىۗ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ ٱلنَّاسِ بِلِقَآىِٕ رَبِّهِمْ لَكَـٰفِرُونَ
کیا انہوں نے کبھی اپنے آپ میں غور و فکر نہیں کیا؟1 اللہ نے زمین اور آسمانوں کو اور اُن ساری چیزوں کو جو اُن کے درمیان ہیں برحق اور ایک مقرّر مدت ہی کے لیے پیدا کیا ہے2 مگر بہت سے لوگ اپنے رب کی ملاقات کے منکر ہیں3
3 | یعنی اس بات کے منکرکہ انہیں مرنے کے بعد اپنے رب کے سامنے حاضر ہوناہے۔ |
2 | اس فقرے میں آخرت کی دو مزید دلیلیں دی گئی ہیں۔اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر انسان اپنے وجود سے باہر کے نظامِ کائنات کو بنظرِ غور دیکھے تو اسے دو حقیقتیں نمایاں نظر آئیں گی: ایک یہ کہ یہ کائنات برحق بنائی گئی ہے۔یہ کسی بچے کا کھیل نہیں ہے کہ محض دل بہلانے کے لیے اس نے ایک بے ڈھنگا سا گھروندا بنالیا ہو جس کی تعمیراور تخریب دونوں ہی بے معنی ہوں۔بلکہ یہ ایک سنجیدہ نظام ہے،جس کا ایک ایک ذرہ اس بات پرگواہی دے رہا ہے کہ اسے کمال درجہ حکمت کے ساتھ بنایا گیاہے،جس کی ہر چیز میں ایک قانون کارفرما ہے،جس کی ہر شے بامقصد ہے۔انسان کا ساراتمدّن اور اس کی پوری معیشت اوراس کے تمام علوم وفنون خود اس بات پرگواہ ہیں۔دینا کی ہرچیز کے پیچھے کام کرنے والے قوانین کو دریافت کرکےاور ہرشے جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہےاسے تلاش کرکے ہی انسان یہاں یہ سب کچھ تعمیرکرسکا ہے۔ورنہ ایک بے ضابطہ اور بے مقصد کھلونے میں اگر ایک پُتلے کی حیثیت سے اس کو رکھ دیا گیا ہوتا تو کسی سائنس اور کسی تہذیب و تمدن کا تصور تک نہ کیا جا سکتا تھا۔اب آخریہ بات تمہاری عقل میں کیسے سماتی ہے کہ جس حکیم نے اِس حکمت اور مقصدیت کے ساتھ یہ دینا بنائی ہے اور اس کے اندر تم جیسی ایک مخلوق کو اعلٰی درجہ کی ذہنی و جسمانی طاقتیں دے کر،اختیارات دے کر،آزادئی انتخاب دے کر،اخلاق کی حِس دے کراپنی دینا کا بےشمار سروسامان تمہارے حوالہ کیا ہے،اس نے تمہیں بے مقصد ہی پیدا کردیا ہو گا؟ تم دنیا میں تعمیروتخریب،اور نیکی و بدی،اور ظلم و عدل،اور راستی و ناراستی کے سارے ہنگامے پربا کرنے کے بعد پس یونہی مرکرمٹی میں مل جاؤ گے اور تمہارے کسی اچھے یا بُرے کام کا کوئی نتیجہ نہ ہو گا؟ تم اپنے ایک ایک عمل سے اپنی اور اپنے جیسے ہزاروں انسانوں کی زندگی پراور دنیا کی بے شمار اشیاء پربہت سے مفید یا مضراثرات ڈال کرچلے جاؤ گے اورتمہارے مرتے ہی یہ سارادفترِعمل بس یونہی لپیٹ کردریا بُرد کردیاجائے گا؟ دوسری حقیقت جو اس کائنات کے نظام کا مطالعہ کرنے سے صاف نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کسی چیز کے لیے بھی ہمیشگی نہیں ہے۔ہرچیز کے لیے ایک عمر مقرر ہے جسے پہنچنے کے بعد وہ ختم ہو جاتی ہے۔اور یہی معاملہ بحیثیت مجموعی پوری کائنات کا بھی ہے۔یہاں جتنی طاقتیں کام کر رہی ہیں وہ سب محدود ہیں۔ایک وقت تک ہی وہ کام کررہی ہیں،اور کسی وقت پرانہیں لامحالہ خرچ ہوجانا اوراس نظام کو ختم ہو جانا ہے۔قدیم زمانے میں تو علم کی کمی کے باعث اُن فلسفیوں اور سائنسدانوں کی بات کچھ چل بھی جاتی تھی جو دنیا کوازلی و ابدی قرار دیتے تھے۔مگر موجودہ سائنس نے عالم کے حدوث و قدم کی اُس بحث میں، جو ایک مّدتِ دراز سے دہریوں اور خدا پرستوں کے درمیان چلی آرہی تھی،قریب قریب حتمی طور پراپناووٹ خداپرستوں کے حق میں ڈال دیا ہے،اب دہریوں کے لیے عقل اور حکمت کا نام لے کریہ دعوٰی کرنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے کہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہیمشہ رہے گی اور قیامت کبھی نہ آئے گی۔پرانی مادہ پرستی کا ساراانحصار اس تخیل پر تھاکہ مادہ فنا نہیں ہو سکتا،صرف صورت بدلی جا سکتی ہے،مگرہرتغیرکے بعد مادّہ ہی رہتا ہے اوراس کی مقدار میں کوئی کمی و بیشی نہیں ہوتی۔اس بناپریہ نتیجہ نکالا جاتا تھا کہ اس عالَمِ مادّی کی نہ کوئی ابتدا ہے نہ انتہا۔لیکن اب جوہری توانائی (Atomic Energy)کے انکشاف نے اس پورے تخیل کی بساط اُلٹ کررکھ دی ہے۔اب یہ بات کھل گئی ہے کہ قوّت مادّے میں تبدیل ہوتی ہے اور مادّہ پھرقوت میں تبدیل ہوجاتا ہے حتٰی کی نہ صورت باقی رہتی ہے نہ ہیولی۔اب حَرکیاتِ حرارت کے دوسرے قانون(Second Law of Thermo-Dynemics)نے یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ عالم مادّی نہ ازلی ہوسکتاہے نہ ابدی۔اس کو لازماً ایک وقت شروع اور ایک وقت ختم ہونا ہی چاہیے۔اس لیے سائنس کی بنیاد پراب قیامت کا انکار ممکن نہیں رہا ہے۔اور ظاہر بات ہے کہ جب سائنس ہتھیار ڈال دے تو فلسفہ کنِ ٹانگوں پراُٹھ کر قیامت کاانکار کرے گا؟ |
1 | یہ آخرت پر بجائے خود ایک مستقل استدلال ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر یہ لوگ باہر کسی طرف نگاہ دوڑانے سے پہلے خود اپنے وجود پر غور کرتے تو انہیں اپنے اندر ہی وہ دلائل مل جاتے جو موجودہ زندگی کے بعد دوسری زندگی کی ضرورت ثابت کرتے ہیں۔ انسان کی تین امتیازی خصوصیات ایسی ہیں جو اس کو زمین کی دوسری موجودات سے ممیز کرتی ہیں: ایک یہ کہ زمین اور اس کے ماحول کی بے شمار چیزیں اس کے لیے مسخر کردی گئی ہیں اور ان پر تصرف کے وسیع اختیارات اس کو بخش دیے گئے ہیں۔دوسرے یہ کہ اِسے اپنی راہِ زندگی کے انتخاب میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ایمان اورکفر،طاعت اور معصیت،نیکی اور بدی کی راہوں میں سے جس راہ پربھی جانا چاہے جا سکتا ہے۔حق اور باطل، صحیح اورغلط،جس طریقے کو بھی اختیار کرنا چاہے کرسکتا ہے۔ ہرراستے پرچلنے کے لیے اسے توفیق دے دی جاتی ہے اور اس پرچلنے میں وہ خدا کے فراہم کردہ ذرائع استعمال کرسکتا ہے،خواہ وہ خدا کی اطاعت کا راستہ ہو یا اس کی نافرمانی کا راستہ۔تیسرے یہ کہ اس میں پیدائشی طور پر اخلاق کی حِس رکھ دی گئی ہے جس کی بنا پروہ اختیاری اعمال اور غیر اختیاری اعمال میں فرق کرتاہے،اختیاری اعمال پرنیکی اور بدی کا حکم لگاتا ہے،اور بداہتہً یہ رائے قائم کرتا ہے کہ اچھا عمل جزا کا اوربُرا عمل سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔یہ تینوں خصوصیتیں جو انسان کے اپنے وجود میں پائی جاتی ہیں اس بات کی نشان دہی کرتی ہیں کہ کوئی وقت ایسا ہونا چاہیے جب انسان سے محاسبہ کیا جائے۔جب اس سے پوچھا جائے کہ جو کچھ دنیا میں اس کو دیا گیا تھا اس پرتصرف کے اختیارات کو اس نے کس طرح استعمال کیا؟ جب یہ دیکھا جائے کہ اس نے اپنی آزادی انتخاب کو استعمال کرکے صحیح راستہ اختیار کیا یا غلط؟ جب اس کے اختیاری اعمال کی جانچ کی جائے اور نیک عمل پرجزا اور برے عمل پر سزا دی جائے۔یہ وقت لامحالہ انسان کا کارنامہ زندگی ختم اوراس کا دفترِعمل بند ہونے کے بعد ہی آسکتاہے نہ کہ اس سے پہلے۔اور یہ وقت لازماً اسی وقت آنا چاہیے جب کہ ایک فرد یا ایک قوم کا نہیں بلکہ تمام انسانوں کا دفترِعمل بند ہو۔کیونکہ ایک فرد یا قوم کے مر جانے پراُن اثرات کا سلسلہ ختم نہیں ہو جاتا جو اس نے اپنے اعمال کی بدولت دینا میں چھوڑے ہیں۔اُس کے چھوڑے ہوئے اچھے یا بُرے اثرات بھی تواس کے حساب میں شمار ہونے چاہییں۔یہ اثرات جب تک مکمل طور پرظاہر نہ ہو لیں انصاف کے مطابق پورا محاسبہ کرنا اور پوری جزایا سزا دینا کیسے ممکن ہے؟ اس طرح انسان کا اپنا وجود اس بات کی شہادت دیتا ہے،اورزمین میں انسان کو جو حثییت حاصل ہے وہ آپ سے آپ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ دینا کی موجودہ زندگی کے بعد ایک دوسری زندگی ایسی ہو جس میں عدالت قائم ہو،انصاف کے ساتھ انسان کے کارنامہ زندگی کا محاسبہ کیا جائے،اور ہر شخص کو اس کے کام کے لحاظ سے جزا دی جائے۔ |
Surah 30 : Ayat 9
أَوَلَمْ يَسِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَـٰقِبَةُ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۚ كَانُوٓاْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَأَثَارُواْ ٱلْأَرْضَ وَعَمَرُوهَآ أَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوهَا وَجَآءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِۖ فَمَا كَانَ ٱللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَـٰكِن كَانُوٓاْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ
اور کیا یہ لوگ کبھی زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اِنہیں اُن لوگوں کا انجام نظر آتا جو اِن سے پہلے گزر چکے ہیں؟1 وہ اِن سے زیادہ طاقت رکھتے تھے، اُنہوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا2 اور اُسے اتنا آباد کیا تھا جتنا اِنہوں نے نہیں کیا ہے3 اُن کے پاس ان کے رسول روشن نشانیاں لے کر آئے4 پھر اللہ ان پر ظلم کرنے والا نہ تھا، مگر وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کر رہے تھے5
5 | یعنی اس کے بعد جو تباہی ان قوموں پرآئی وہ ان پرخدا کا ظلم نہ تھا بلکہ وہ ان کااپنا ظلم تھاجو انہوں نے اپنے اوپرکیا۔جو شخص یاگروہ نہ خود صحیح سوچے اور نہ کسی سمجھانے والے کے سمجھانے سے صحیح رویہ اختیار کرےاس پراگر تباہی آتی ہے تو وہ آپ ہی اپنے برے انجام کا ذمہ دار ہے۔خدا پراس کاالزام عائد نہیں کیاجا سکتا۔خدانے تو اپنی کتابوں اور اپنے انبیاءکے ذریعہ سے انسان کو حقیقت کا علم دینے کا انتظام بھی کیا ہے،اور وہ علمی و عقلی وسائل بھی عطا کیے ہیں جن سے کام لے کر وہ ہروقت انبیاءاورکتب آسمانی کے دیے ہوئے علم کی صحت جانچ سکتا ہے۔اِس رہنمائی اوران ذرائع سے اگرخدا نے انسان کو محروم رکھا ہوتا اوراس حالت میں انسان کو غلط روی کے نتائج سے دو چار ہونا پڑتا تب بلاشبہ خدا پرظلم کے الزام کی گنجائش نکل سکتی تھی۔ |
4 | یعنی ایسی نشانیاں لے کرآئے جوان کے نبی صادق ہونے کا یقین دلانے کے لیے کافی تھیں۔اس سیاق و سباق میں انبیاء کی آمد کے ذکر کا مطلب یہ ہے کہ ایک طرف انسان کے اپنے وجود میں،اوراس سے باہر ساری کائنات کے نظام میں،اورانسانی تاریخ کے مسلسل تجربے میں آخرت کی شہادتیں موجود تھیں،اور دوسری طرف پے در پے ایسے انبیاءبھی آئے جن کے ساتھ ان کی نبوت کے برحق ہونے کی کھلی کھلی علامتیں پائی جاتی تھیں،اورانہوں نے انسانوں کو خبردار کیاکہ فی الواقع آخرت آنے والی ہے۔ |
3 | اس میں اُن لوگوں کے استدلال کا جواب موجود ہے جو محض مادی ترقی کو کسی قوم کے صالح ہونے کی علامت سمجھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے زمین کے ذرائع کو اتنے بڑے پیمانے پراستعمال(Exploit)کیا ہے،جنہوں نے دنیا میں عظیم الشان تعمیری کام کیے ہیں اور ایک شاندار تمدن کو جنم دیا ہے،بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالٰی ان کو جہنم کا ایندھن بنادے۔قرآن اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ’’تعمیری کام‘‘پہلے بھی بہت سی قوموں نے بڑے پیمانے پرکیے ہیں،پھرکیاتمہاری آنکھوں نے نہیں دیکھا کہ وہ قومیں اپنی تہذیب اور اپنے تمدن سمیت پیوند خاک ہو گئیں اوران کی ’’تعمیر‘‘کا قصرِفلک بوس زمین پرآرہا!جس خدا کے قانون نے یہاں عقیدہ حق اوراخلاقِ صالحہ کے بغیر محض مادی تعمیرکی یہ قدرکی ہے،آخرکیا وجہ ہے کہ اسی خدا کا قانون دوسرے جہان میں انہیں واصل جہنم نہ کرے؟ |
2 | اصل میں لفظ اَثَارُواالارضَ استعمال ہوا ہے۔اس کا اطلاق زراعت کے لیے ہل چلانے پربھی ہوسکتا ہےاور زمین کھود کر زیرزمین پانی،نہریں،کاریزیں اور معدنیات وغیرہ نکالنے پربھی۔ |
1 | یہ آخرت کے حق میں تاریخی استدلال ہے۔مطلب یہ ہے کہ آخرت کاانکاردنیا میں دوچار آدمیوں ہی نے تو نہیں کیا ہے۔انسانی تاریخ کے دوران میں کثیرالتعداد انسان اس مرض میں مبتلا ہوتے رہے ہیں۔بلکہ پوری پوری قومیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے یا تو اس کاانکارکیا ہے،یااس سے غافل ہوکررہی ہیں،یا حیات بعد الموت کے متعلق ایسے غلط عقیدے ایجاد کرلیے ہیں جن سے آخرت کا عقیدہ بے معنی ہوکررہ جاتاہے۔پھر تاریخ کا مسلسل تجربہ یہ بتاتا ہے کہ انکار آخرت جس صورت میں بھی کیاگیا ہےاس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کے اخلاق بگڑے،وہ اپنے آپ کو غیرذمہ دار سمجھ کرشتربےمہاربن گئے،انہوں نے ظلم و فساد اورفسق و فجور کی حد کردی،اوراسی چیز کی بدولت قوموں پرقومیں تباہ ہوتی چلی گئیں۔کیا ہزاروں سال کی تاریخ کا یہ تجربہ،جو پے در پےانسانی نسلوں کو پیش آتا رہاہے،یہ ثابت نہیں کرتاکہ آخرت ایک حقیقت ہے جس کا انکارانسان کے لیے تباہ کن ہے؟ انسان کششِ ثقل کااسی لیے تو قائل ہوا ہےکہ تجربے اورمشاہدے سے اس نے مادی اشیاکوہیمشہ زمین کی طرف گرتے دیکھا ہے۔انسان نے زہرکو زہراسی لیے مانا ہے کہ جس نے بھی زہرکھایا وہ ہلاک ہوا۔اسی طرح جب آخرت کا انکار ہیمشہ انسان کے لیے اخلاقی بگاڑ کاموجب ثابت ہوا ہے تو کیا یہ تجربہ یہ سبق دینے کے لیے کافی نہیں ہے کہ آخرت ایک حقیقت ہے اوراس کو نظرانداز کرکے دنیامیں زندگی بسر کرنا غلط ہے؟ |
Surah 30 : Ayat 10
ثُمَّ كَانَ عَـٰقِبَةَ ٱلَّذِينَ أَسَـٰٓـــُٔواْ ٱلسُّوٓأَىٰٓ أَن كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ وَكَانُواْ بِهَا يَسْتَهْزِءُونَ
آ خرکار جن لوگوں نے بُرائیاں کی تھیں ان کا انجام بہت برا ہوا، اس لیے کہ انہوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلایا تھا اور وہ ان کا مذاق اڑاتے تھے